Bachpan
بچپن
بچپن ایسا دور ہوتا ہے جو ہر انسان چاہتا ہے۔ بچپن میں اصل خوبی یہ ہے کہ ذمہ داریاں نہیں ہوتی۔ بچپن میں انسان دیوانہ ہوتا ہے۔ انسان کو کسی بھی چیز کی فکر نہیں ہوتی۔ انسان کو ہر وقت سکون اور راحت ہوتی ہے۔ اگر فکر ہوتی ہے تو صرف اپنی خواہشات کی ہوتی ہے۔ بچپن کی خواہشات کیا ہوتی ہے۔ بچپن کی خواہشات اور کچھ نہیں ہوتی بس ہر بچہ کھیل کود میں مصروف رہتا ہے۔ کھیل اصل میں بچپن میں کھیلی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تو جسم چست ہوتا ہے، فٹ ہوتا ہے، بیماریاں نہیں ہوتی، سب سے اہم بات کہ ذمہ داریاں نہیں ہوتی۔
انسان بچپن میں بس کھاتا ہے، پیتا ہے اور سوتا ہے۔ بچپن کی نیند بھی سکون کی ہوتی ہے۔ بچپن کی نیند انسان کو جلدی آتی ہے۔ بچپن میں انسان کل کی سوچ دل میں ڈال کر نہیں سوتا بلکہ یہ سوچ کر سوتا ہے کہ کل میں کونسے دوستوں کے ساتھ جاوں گا کل کہاں کھیلنا ہوگا، بس یہی محدود سوچ انسان دل میں رکھتا ہے۔ عام طور پر بچپن اگر میں ایک عام مڈل کلاس فیملی کی بات کرو، تو ایک بچہ جماعت دہم تک کھیل کھیلتے ہیں۔ یعنی دہم وہ سیڑھی ہے جس کے بعد ایک تو انسان کا بچپن آہستہ آہستہ ختم ہوتا ہے تو دوسری طرف سوچ میں تبدیلی آتی ہے، جسم میں تبدیلی آتی ہے۔
یہ سال 2004 کی بات ہے جب میں جماعت نہم میں پڑھتا تھا تو ہمارے ایک استاد محترم تھے وہ کہتے تھے کہ اب جو آپ کی عمر ہے آپ جس عمر میں ہے آپ کے ذہن میں یہ خیالات آتے ہونگے کہ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں سامنے والے دیوار کو لات مار کر گراسکتا ہوں تو اس وقت واقعی ایسا ہی تھا ایسے ہی ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں۔ دوسری بات ہمارے استاد محترم یہ بار بار کرتے تھے کہ دیکھو بچو ابھی تو آپ آزاد ہیں، لیکن کچھ وقت بعد آپ کو ایک بہت بڑی دوڑ لگانی ہے، آپ نے زندگی میں آگے جانے کیلئے بہت بڑی دوڑ لگانی پڑے گی، ہم جب اس وقت یہ باتیں سنتے تھے تو ہم دل میں ہنس لیا کرتے تھے کہ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ ہم تو بہت تیز دوڑ لگا سکتے ہیں۔ ہم تو سب کچھ کرسکتے ہیں، تو اس کی وجہ اور کوئی نہیں تھی بس یہی وجہ تھی کہ ہم اس وقت بچے تھے۔ اس وقت ہمارے اوپر ذمہ داریاں نہیں تھے۔ اس وقت ہمیں احساس نہیں تھا ہمیں تو بس سب کچھ ملتا تھا ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ سب کچھ کیسے مل رہا ہے۔
پرانے زمانے میں تصاویر کھینچنے کیلئے ایک کیمرہ ہوتا تھا اس میں جو ریل ڈالا جاتا تھا اس میں صرف 36 تصاویر آتے تھے اور یہ دور اتنا پرانا بھی نہیں ہے 1999-1998 کی بات ہوگی تو اس کیمرے کے ذریعے ہر کوئی تصاویر کھینچتے تھے۔ ہم نے کئی تصاویر اس وقت کھینچے ہیں۔ جب وہ تصاویر مجھ سمیت کسی کے بھی ہاتھ آتے ہیں تو ہم ایک آہ کرتے ہیں کہ دیکھو کتنا اچھا دور تھا۔ یہ موبائیل فون ویسے تو کافی پرانا ہے لیکن میں اگر آپنے علاقے کی بات کرو تو جو سادہ موبائل فون تھا 1100 کے نام سے تو یہ تقریباً 2000 میں نمودار ہوا میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیمرے کے دور تک کا بچہ بہت بہترین تھا۔ آج کل میں جو بچوں کا بچپن دیکھ رہا ہوں تو میں قسم سے کہتا ہوں مجھے رونا آرہا ہے۔
میں یہ سوچتاہوں کہ بچپن تو سکون کا نام ہے اور آج کل ایک بچہ کہتا ہے کہ مجھے سکون نہیں ہے، مجھے راحت محسوس نہیں ہورہی۔ ہر انسان جب بڑا ہوتا ہے اور اس پر ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہے تو وہ انسان اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے کہ کاش وہ بچپن کا دور واپس آجائے اور میں آپنی زندگی کو خوب انجوائے کروں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں لوٹتا۔ انسان جتنا بھی چاہے جتنا بھی سوچے لیکن وہ گزرا ہوا وقت واپس کبھی نہیں آتا۔
بچپن کے بعد انسان کی ساری زندگی ذمہ داریاں نبھانے میں گزر جاتی ہے۔ انسان کو یہ فکر ہر وقت ہوتی رہتی ہے کہ کیا ہوگا زندگی کیسے گزرے گی، میرا کام کیا ہوگا۔ رشتے کیسے ہونگے۔ کام کاج کیسے کروں گا کیا کام کاج کروں گا۔ انسانوں کے ساتھ زندگی کیسے گزاروں گا۔ حقوق العباد کا خیال کیسے رکھوں گا۔ اپنی زندگی کس کے نقش قدم پر گذاروں گا۔ گھر میں کیسے رہوں گا۔ رشتہ داروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں گا۔ یہ وہ تمام ذمہ داریاں ہوتی ہے جو ہر انسان کو اس کا بچپن یاد کرتی ہے۔ کہ کاش وہ بچپن کا دور ہوتا اور میں وہی زندگی گزارتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
یہ تو طے ہے یہ تو زندگی ہے پہلے بچپن پھر اصل زندگی یعنی وہ زندگی جس میں انسان کو پتہ چلتا ہے کہ مجھے اس دنیا میں کیا کرنا ہے۔ کس مقصد کیلئے میں یہاں ہوں۔ لیکن بعد میں ہر انسان آپنی ایک سوچ ایک مقصد پر زندگی گذارتا ہے۔ کسی پر کسی کا زور نہیں ہوتا کہ ایسے رہوں، ہر کوئی اپنی مرضی سے زندگی جیتا ہے، لیکن جیسے بھی جیتا ہے ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ جیتا ہے خواہ وہ ذمہ داریاں جیسے بھی ہوں۔