Baba
بابا
بابا کبھی کبھار مجھے اپنے ساتھ دفتر لے جاتے تھے۔ وہ نیشنل بینک میں ملازم تھے۔ پہلی یاد ریاض آباد کی ہے۔ اس وقت شاید میں اسکول میں بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ وہاں ملوک نام کے حلوائی کی دکان پر کھائی ہوِئی جلیبی یاد ہے۔ کچا کھوہ برانچ میں سردیوں کی صبح ایک ڈاکٹر صاحب بابا کے پاس بیٹھے تھے۔ انھوں نے چیک بک نکال کر کہا، میں سو روپے کا چیک لکھنا چاہتا ہوں۔ ہنڈرڈ کے اسپیلنگ کیا ہوتے ہیں؟ میں نے ٹھیک ٹھیک بتادیا تو خوش ہوئے۔ ان کے الفاظ آج تک مجھے یاد ہیں، "بیٹے، میں اپنے استاد کے بتائے ہوئے اسپیلنگ بھول گیا تھا۔ آپ کے بتائے ہوئے کبھی نہیں بھولوں گا۔
پھر بابا کا میاں چنوں تبادلہ ہوگیا تو کئی بار لے کر گئے۔ تب میں پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا۔ میاں چنوں میں بابا کی ایک ذمے داری یہ تھی کہ محکمہ اوقاف کے افسروں کے ساتھ مختلف مزاروں پر جاتے اور چندہ بکس کھول کر پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرتے۔ گارڈ ساتھ ہوتا تھا۔ میاں چنوں دراصل ایک بزرگ کا نام تھا۔ ان کے مزار پر بہت اداسی تھی۔ اونچے درختوں نے دور تک دھوپ روکی ہوئی تھی۔ کبوتر اڑتے پھر رہے تھے۔ وہاں پہلی بار پھیکی لسی پی اور جی کھٹا ہوا۔
کراچی آنے کے بعد بابا کی پہلی پوسٹنگ نمائش برانچ میں تھی۔ وہ بعد میں بند ہوگئی۔ میرے امریکا آنے تک وہاں موٹر سائیکلوں کی دکان تھی۔ نمائش کے بعد بابا کا تبادلہ بولٹن مارکیٹ برانچ میں ہوا۔ یہ بینک میمن مسجد کے بالکل سامنے تھا۔
اس برانچ کی کئی یادیں میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ جب میں نے مشتاق یوسفی کی زرگزشت پڑھی تو میرے دماغ میں اسی برانچ کی تصویر چلتی رہی۔ بڑا سا ہال، کم روشنی، سست کارکن، مصروف مقام ہونے کے باوجود چند ایک اکاونٹ ہولڈرز۔
بابا بہت سال سے ہیڈ کیشئیر تھے لیکن اس برانچ میں ایک ہیڈ کیشئیر پہلے سے موجود تھے۔ وہ چند ماہ میں ریٹائر ہونے والے تھے۔ اسی لیے بابا کا ٹرانسفر وہاں ہوا کہ کچھ دن ان کے ساتھ کام کریں اور پھر ان سے چارج لے لیں۔ مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ تیس سال پہلے ان صاحب کا اپائنٹمنٹ اسی برانچ میں ہوا تھا اور وہ ایک بار بھی ٹرانسفر ہوئے بغیر وہیں سے ریٹائر ہورہے تھے۔ دوسری طرف بابا تھے جو پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے بیس سے زیادہ شہروں اور نہ جانے کتنی شاخوں میں کام کرچکے تھے۔ عام طور پر بینک ملازم کا دوسرے صوبے میں تبادلہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن بابا کو منیجروں سے لڑنے کا شوق تھا۔ شادی سے پہلے ایک دو کے سر بھی پھاڑ چکے تھے۔ انھیں سزا دینے کے لیے دور دور پھینکا جاتا۔
ہر شخص میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ بابا میں بھی ہوں گی۔ لیکن ایک کمال یہ تھا اور انھیں جاننے والوں کو تعجب بھی ہوتا تھا، کہ وہ کبھی چھٹی نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ وقت سے پہلے دفتر پہنچ جاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بطور ہیڈ کیشئیر ان کے پاس بینک لاکر کی چابیاں ہوتی تھیں۔
بابا نے کبھی کراچی کے بدترین حالات اور کرفیو تک میں ناغہ نہیں کیا تھا۔ لیکن ایک دن ایسی بارش ہوئی کہ انچولی میں گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہوگیا۔ کراچی میں ہر چند سال بعد ایسی ایک بارش ہوتی ہے۔ بابا نے زندگی بھر نہ موٹر سائیکل چلائی اور نہ ڈرائیونگ سیکھی۔ صبح سویرے بس یا ٹیکسی نہیں ملی ہوگی۔ وہ دفتر نہیں گئے۔ اتفاق سے مہینے کی آخری یا پہلی تاریخ تھی اور کسی سرکاری ادارے کے ملازمین کی تنخواہ کا دن تھا۔ لاکر نہیں کھل سکا کیونکہ چابیاں بابا کے پاس تھیں۔ چنانچہ منیجر نے دو بندے بھیجے جو کار میں انھیں لینے آئے۔
میں بھی بابا کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ بارش تب بھی ہورہی تھی اور رات تک جاری رہی۔ واپسی پر میں نے بولٹن مارکیٹ کے نیوز اسٹال سے کرکٹ کے ایک نئے رسالے کا پہلا شمارہ خریدا۔ آج بہت کم لوگوں کو اس کا نام یاد ہوگا کیونکہ وہ بارہ شماروں کے بعد بند ہوگیا تھا۔ انگلینڈ سے چھپنے والے اس رسالے کا نام کرکٹ لائف تھا اور اس پر ایڈیٹر ان چیف کے طور پر عمران خان کا نام درج تھا۔