Friday, 03 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Smuggle Shuda Hero

Smuggle Shuda Hero

سمگل شدہ ہیرو

ہم ہندی مسلمانوں کا الگورتھم خاصا بے سرا اور اتھرا واقع ہوا ہے، نسل در نسل اس بے سرے پن میں پختگی آتی جا رہی ہے، ابن خلدون نے قوموں کی عصبیت بارے بیان کرتے ہوئے کہا تھا۔ "عصبیت پہلی نسل میں بہت مضبوط ہوتی ہے، دوسری اور تیسری نسل تک پہنچتے کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے"۔

مگر یہاں معاملہ الٹا کیا عصبیت، کیا جہل، کیا کم اندیشی، کیا سطحیت نسل در نسل کمزور ہونے کے بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے، اسی لئے ہندی مسلمانوں کے الگورتھم کو میں نے سرا کہا ہے۔

ابے ابن خلدون کی ہی لاج رکھ لو، عصبیت تو کیا بننی تھی، ہند مسلمانوں کی کش مکش بن کے رہ گیا، کوئی قندھار کا اخروٹ ہے، کوئی بخارا کا آلو بخارا ہے، کوئی سمر قند کی قلاقند ہے، کوئی سپین کا پستہ ہے، تو کوئی عرب کا چھوارا ہے، تو کوئی ایران کا چلغوزہ، اب یہ سارے خشک میوہ جات ہندوستان میں جمع ہو کر عصبیت تو خاک جمع کر پاتے، بے چارے کش مش بن کر رہ گے۔

ادھر ستم یہ ہوا کہ غزنی کا محمود اسلام کا بول بالا کرنے لئے ہندوستان آتا تو لاہور، جہلم، دہلی کے سارے مندر چھوڑ کر جو راستے میں ہی پڑتے تھے، گجرات کے ساحلی علاقے کے سب سے مالدار مندر پر دھاوا بولتا ہے اور صرف بت شکن ہی نہیں بنتا، بلکہ بت سمگلر بھی بنتا ہے۔

سمگلر سے یاد آیا، کہ چمن اور طور خم باڈر سمگلروں کے لئے فردوس ابلیس ہیں، کسی زمانے میں چرس اور افیون سمگل ہو کر یہاں آتی تھی، براستہ طور خم، بلکہ اب بھی آتی ہے، باڑے اور درے کی چرس کے تو کیا ہی کہنے، یہی وہ تاریخی روٹ تھا جس سے غزنی کے بت شکن بت اور ہیرے جواہرات سمگل کرکے افغانستان لے جایا کرتے تھے، آج کل ان کے جانشین چرس، پوڈر ہندوستان کے ختنہ شدہ رقبے یعنی مملکت پاکستان میں سمگل کرتے ہیں۔

خیر سمگلنگ کا یہ روٹ محفوظ تو ہے، غالباََ مطالعہ پاکستان میں درہ خیبر کی تاریخی اہمیت یہ تھی کہ وہاں سے گزر کر فلاں ترکمانی، افغانی و سمرقندی ہماری بینڈ بجانے آیا کرتے تھے۔

تاریخی مقامات بھی ہم نے خاصا جنگجو نسل کے پال رکھے ہیں، ادھر دیار فرنگ کے تاریخی مقامات دیکھیے، روم کا آرکی ٹکچر ملاحظہ کیجئے، طویل قامت مجسمے، جو سرد پلستر شدہ تاثرات لئے صدیوں سے اکڑوں بیٹھے ناظرین کو تاڑے جا رہے ہیں، ویٹی کن سٹی کو دیکھیے، اہل فن کی پینٹنگ کا مشاہدہ کیجیے، پیٹنگ کا موضوع کوئی جنگ ہی ہوگی، مگر کیا آرٹ کا مظاہرہ کیا گیا ہے، جنگ سے بھی جمالیات کشید کرنا۔ مگر یہاں درہ خیبر سے محمود غزنوی صاحب آرہے ہیں، پیٹنگ تو نہیں ہے، مگر حکایت والے عنایت اللہ کے پانچ جلدوں پر مشتمل ایمان افروز ناول "اور ایک بت شکن پیدا ہوا" میں محمود آف غزنی کی تحریری شبیہ کچھ یوں ابھرتی ہے کہ لگتا ہے۔

محمود غزنوی تلوار کے بجائے مسواک تھامے اہل ہند کو شرعی مجامعت کے دروس دینے آتا تھا۔

اب کیا یہ تحریری پیٹنگ اس فرنگی آرٹ کے برابر بھی ہو سکتی ہے، جو ہیرو کو جیسا ہے بنا کے پیش کرتی ہے، مجھے سکرین پلے رائٹر steven deknight یاد آگئے، جولیس سیزر سے بڑا کون ہیرو ہوگا، روم کی عروق مردہ میں روح پھونکنے والا۔ steven deknight نے جب سپارٹیکس سیریز کا سکرین پلے لکھا تو اس کے ایک حصے میں جولیس سیزر کا ذکر ملتا ہے، اس وقت سیزر رومی جرنیل Marcus licinius کے ماتحت سپارٹیکس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، ایک مرحلے میں سیزر اور جنرل مارکس کے بیٹے کے بیچ توں تڑاخ ہو جاتی ہے، جرنیل کا بیٹا پھر جرنیل کا ہی پتر ہوا کرتا ہے، اس گستاخی کا بدلہ مارکس کا بیٹا سیزر سے اس طرح لیتا ہے، جسے سٹیون نے سکرین پر لکھا۔

"کہ جنرل مارکس کا پتر سیزر کو تین ہٹے کٹے سپاہیوں سے قابو کروا کے اس سے جنسی زیادتی کر دیتا ہے"۔

سیزر جیسے ہیرو کو مفعول بنا کے پیش کرنے کی جرات دیار فرنگ کا ایک سکرین پلے رائٹر کر سکتا ہے، مگر ہندی مسلمان ہیروز کو مفعول اور فاعل تو درکنار تقوی میں اس درجے پہنچا دیتے ہیں کہ، بعض اوقات بزبان جوش "مودودی کی نظر سے دیکھنے سے مرد صالح اور اہل نظر کی نگاہ سے دیکھنے سے مخنث کا احتمال ہوتا ہے"۔

جوش تو جوش تھے، کچھ بھی اگل دیتے، مفعول سے یاد آیا، محمودی و ایازی کی gossip بھی مورخین کے ہاں تاریخی غیبت کا درجہ پا چکی ہیں، پر ہمیں اس سے کیا، ہم تو اس معاملے میں اقبال کے پیروکار ہیں، جو محمود و ایاز کو ایک صف میں لاکھڑا کرتے ہیں، کہ چہ جائیکہ naughty قسم کے مورخین محمود و ایاز کو صف کی افقی حالت میں کھڑا نہیں دیکھتے، اس میں ان کا مسلک دونوں کو اوپر تلے عمودی زاویہ سے دیکھنے کا ہے، پر ہمیں اس سے کیا، جہاں وہ ایازی کریں یا محمودی وہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔

مگر یہ" ایازی" بھی نسل در نسل منتقل ہوتی گی، اب تو خیر نوخیز و حسین ایازوں کی بنوں میں منڈیاں لگتی ہیں۔ سوات کے خوانین کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ، ان کے ہاں بھی خوبصورت لڑکوں کو داشتہ طرز پر رکھنے کا رواج عام ہے۔ خیر۔۔

بات ہیروز کی ہور رہی تھی، آج کل ابدالی بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے، ہمارے اس ہیرو کو کوریئر کروانے کا سہرا شاہ ولی اللہ کے سپرد جاتا ہے، شاہ صاحب بھی باکمال تھے، کہاں حجتہ اللہ البالغہ جیسا شاہکار لکھنے والے، تفہیمات الٰہیہ کے فہم دان، مسلم نشاہ ثانیہ کے لئے جو عملی قدم اٹھاتے ہیں وہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ شاید اس وقت کے ہندی مسلمانوں کا الگورتھم بھی بے سرا ہی تھا۔

میرے سامنے شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات نامی کتاب ہے، کتاب کے صفحہ 29 پر شاہ ولی اللہ کا وہ خط ہے جو انھوں نے ابدالی کو لکھا، جس میں وہ ابدالی کو ہندوستان کی دولت کے بارے للچاتے ہوئے لکھتے ہیں "ہندوستان کے محصولات 817 کروڑ سے کسی صورت کم نہیں، مگر اس کو وصول کرنے کے لئے طاقت چاہیے، راجپوتانہ کے محاصل دو کروڑ سے کم نہیں، جس علاقے میں جاٹوں کا تصرف ہے وہاں ایک کروڑ کے محصولات ہیں"۔

اس سے بڑی سیاسی ریکی کیا ہوگی، ایک حملہ آور کے واسطے، میر صادق نے قلعے کا گیٹ کھول دیا تھا، تو انگریز نے ٹیپو کی بینڈ بجادی، میر صادق غداری کی اسفل مثال بن کر رہ گیا، مگر ہندوستان کا ایک عالم دین خطوں کے ذریعے حملہ آور کو چور دروازے دکھانے کے باوجود مجدد ٹھہرا، شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ جس واسطے شاہ صاحب نے گیٹ کھولے وہ بھی ہم مذھب تھا، اس لئے اقبال نے کہا۔

شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا۔

مگر شاہ ولی اللہ کے نجات دہندہ تو شبستان محبت والے تھے نہیں، لوٹ مار میں وہ سیکولرزم کے قائل تھے، بلا کسی مذھبی تفریق کے، ہندو، مسلم سکھ کو برابر لوٹتے اور وہی روٹ استعمال کرتے جس سے کبھی محمود آف غزنی نے سومنات کے ہیرے و جوہرات سمگل کیے تھے۔ جہاں سے آج کل چرس، پوڈر اور گردہ سمگل ہو کر آتا ہے۔

شاہ صاحب کے پڑ ہوتے شاہ اسماعیل نے بھی اسی طرح کا عملی قدم اٹھایا، تحریک مجاھدین بنا کر انگریز کے بجائے سکھوں پر چڑھ دوڑا۔

اب تو ہمارے قومی میزائل بھی کابلی ہوتے جارہے ہیں۔

یہی تو وہ کش مش ہے۔ مذہب ہمارا حجازی ہے، لٹریچر ایرانی اور سمر قندی ہے، ہیروز تورانی و ترکستان سے سمگل شدہ ہیں اور میزائل ہمارے اب کابلی بن چکے ہیں۔

اب چونکہ آپریشن بھی شروع ہو چکا ہے، اب غوری میزائل کس منہ سے اپنے ہم وطنوں پر پھٹے گا، ابدالی میزائل کیا منہ دکھائے گا اپنے جانشینوں کو۔

مودودی صاحب نے لکھا تھا "غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ بچے جنتی ہیں"۔

میں کہتا ہوں "غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں، کبھی کبھی میزائل بھی جن دیتی ہیں"۔

Check Also

Nargasiat Aur Iski Ahmiyat

By Najeeb ur Rehman