Sunday, 05 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Iss Aashiqui Mein Izzat e Sadat Bhi Gayi

Iss Aashiqui Mein Izzat e Sadat Bhi Gayi

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

"بلدیہ کی کونسلر شپ سیاسی کارکن کا قبرستان ہوتی ہے اور میں بھی اسی قبرستان میں دفن ہوگیا۔ ہماری کالونیاں /کچی آبادیاں جو منی لاڑکانہ کہلاتی تھیں وہاں کے نظریاتی جیالوں کی اکثریت اسی قبرستان میں دفن ہوگئی اور اب وہاں نواز لیگ اور پی ٹی آئی کا راج ہے یا پھر مذھبی فرقہ پرست جماعتوں کا۔ تحریک لبیک یہاں تیسرے نمبر پہ آتی ہے"۔

میں خانیوال کے مشہور ترین چوک سنگلہ والہ میں چوہدری زاہد کے ساتھ اس جگہ سے تھوڑے سے فاصلے پر کھڑا تھا جہاں کبھی "چھانو کا چائے کا ہوٹل" ہوا کرتا تھا اور سرشام وہاں سیاسی کارکنوں کی آمد شروع ہوجاتی اور رات گئے تک وہاں سیاسی بیٹھکیں لگا کرتے تھیں۔ ہمارا گھر اسی ہوٹل سے چند قسم فاصلے پر بلاک تین کی چھے نمبر گلی میں تھا۔ ہر سیاسی جماعت اس چوک میں جلسے یا جلوس کی صورت اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتی تھی اور اپنے ہونے کا ثبوت دیا کرتی تھی۔

میں چودھری زاہد کو یاد دلانے لگا کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب جین مندر لاہور کی سڑک پہ پولیس سیدھی فائرنگ کر رہی تھی اور چوہدری زاہد اور جان محمد جانی دونوں اس روز آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہونے والوں میں شامل ہوتے اگر خانیوال کے سے آئے دیگر جیالوں نے انھیں پیچھے سے زبردستی جھپا ڈال کر روک نہ لیا ہوتا۔ چوہدری زاہد ماضی میں گم ہوگئے اور لگے 10 اپریل 1986ء جمعرات کے دن کو یاد کرنے جس روز پنجاب کے لاہور میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی اور پھر افسوس کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ان کی سیاست کو بلدیاتی سیاست کھا گئی۔

85ء میں جان محمد جانی بلدیاتی کونسلر بنے اور پھر وہ سرکاری مسلم لیگ کو پیارے ہوگئے اور برسوں اسی لیگ کے ایک جاگیردار ایم این اے کی کوٹھی کے طواف کرتے رہے۔ چوہدری زاہد بہت بعد میں کونسلر بنے اور وہ پھر ایک میڈیاکر سیاست دان نشاط احمد خان ڈاہا کے مقامی گروپ میں شامل ہوئے اور جہاں نشاط گیا وہ بھی وہیں گئے۔ آج کل نشاط خان کی بیوہ پی ٹی آئی میں ہے تو وہ بھی پی ٹی آئی میں ہیں۔ میں ایسے درجنوں بہترین منجھے ہوئے سیاسی کارکنوں کو جانتا ہوں جن کا تعلق یا تو پی پی پی سے تھا یا پھر جماعت اسلامی سے لیکن بلدیاتی سیاست نے جیسے انھیں خصی کر دیا اور وہ گلی محلے کے محض کونسلر بن کر رہ گئے اور مقامی طاقتور جاگیردار یا سرمایہ دار کے ڈیرے کے مجاور ہوگئے۔

ہمارے جرنیلوں کو بلدیات بہت عزیز رہی وہ جب بھی لنگڑی لولی جمہوریت کا بستر گول کرتے تو اپنی جمہوریت پسندی کا ثبوت نئے بلدیاتی نظام اور انتخابات کرا کر دیتے تھے۔ معتوب سیاسی جماعتیں جب ان انتخابات میں اپنے بہترین گلی محلے کے کارکنوں کو اتارا کرتیں تو کامیاب ہونے والے واپسی کا راستا بھول جاتے اور وہیں بلدیاتی قبرستان میں دفن ہوجاتے۔ ہمارا سینئر دوست چوہدری زاہد پرسوں ترنگ میں تھا اور نجانے کس پچھتاوے کا شکار بھی وہ اعتراف کرنے لگا کہ اس کے اندر کا سیاسی کارکن بھی بلدیات کے قبرستان میں دفن ہے۔

چوہدری زاہد جیسے لوگ اب بھی اپنے اپنے محلوں، بلدیاتی وارڈ اور یونین کونسل میں بہترین پولیٹیکل اسٹریٹجسٹ ہیں اور ان کے ہاں پولنگ بوتھ کے رزلٹ اکثر جیت کی صورت میں نکلتے ہیں لیکن اب یہ سیاسی جماعتوں کا اثاثہ نہیں ہیں بلکہ مقامی طاقتور سیاسی دھڑوں میں سے کسی نہ کسی دھڑے کی قیادت کرنے والے جاگیردار یا سرمایہ دار سیاست دان کا اثاثہ ہیں۔ جن میں سے اکثر کی ڈور فوجی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہوتی ہے بلکہ پہلے دو نمبر کی دوڑ میں شامل دونوں اور تینوں سیاسی گھوڑے اس کے ہی ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے کہ ان کی معتوب کوئی جماعت پولنگ اسٹیشنوں پر ہرائی نہ جاسکے تو اسے الیکشن کمیش ہرا دیتا ہے۔ ماضی میں ایسی جماعت اگر کسی نہ کسی طرح حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی تو اسے اٹھاون ٹو بی کے ہتھیار سے نکال باہر کیا جاتا تھا۔

اس ملک کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے پہلے حقیقی عوامی جمہوری جماعتوں کو جبر اور ظلم و ستم سے توڑنے کی کوشش کی جب یہ کوشش الٹی گلے پڑی تو جنرل ضیاء الحق نے بلدیات میں کرپشن اور ایک غیر جماعتی اسمبلی میں تاجروں، ٹھیکے داروں کی بھرمار کی اور ترقیاتی فنڈ میں کمیشن کھانے اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے مال بنانے کے سارے طریقے سکھائے۔ رئیل اسٹیٹ، منشیات، اسلحے کی اسمگلنگ سے دولت کے انبار لگانے اور بینکوں سے قرضے لیکر ہڑپ کرنے جیسے طریقے سکھائے۔ پرانے سیاست دان نئے سیاست دان نما تاجروں اور اٹھائی گیروں کا مقابلہ نہ کر پائے۔

سب سے آخر میں اس تاجرانہ سیاست کے کلچر کو پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنایا جن عوامی سیاسی جماعتوں کو ضیاء الحق کے کوڑے، پھانسیاں، شاہی قلعہ، اٹک قلعے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف او یو کے خفیہ اذیت گھر اور فوجی عدالتیں تباہ نہ کرسکیں اور بدترین سنسر شپ نہ توڑ سکی انھیں کرپشن، کمیشن، ککس بیک ٹھیکے، ناجائز بھرتیوں نے تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دیا۔

سیاسی کارکن دہاڑی باز، فراڈیے ہوگئے، صحافی قلم فروش ہوگئے، وکلاء ججوں کے دلال بن گئے، ڈاکٹر مسیحا کے روپ میں سفاک قاتل بن گئے، انجنئیر ڈیزائن میں تبدیلی کرکے اور منصوبوں کی تکمیل کے دوران ناقص میٹیریل کا استعمال کرکے کروڑ اور ارب پتی ہوگئے، ٹریڈ یونین لیڈر فیکٹری اور کارخانوں کے مالکان کے دلال بن گئے۔ جنھوں نے نظریات کا علم بلند رکھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عبرت اور کسمپرسی کا نشان بن گئے اور باہر والوں کی نہیں بلکہ اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کی ملامت کا نشانہ بنے۔

نظریاتی سیاسی کارکن، صحافی، وکیل، مزدور رہنماء، شاعر، ادیب، دانشور، استاد سب کے سب مجرم ٹھہرے اور نشانہ ملامت و تضحیک کہ انھوں نے اپنے گھر والوں کو بھوک کا عذاب دیا، بچے بچیاں پڑھائیں تو نوکری نہ دلواسکے، کسی جاگیردار، وڈیرے خان، سردار، سرمایہ دار، کسی بیوروکریٹ، کسی فوجی افسر کے دروازے پہ جاکر اپنے بچوں کے لیے روزگار کی بھیک نہ مانگ سکے۔ ان کے گھر والے کہتے ہیں ان کی ان کی سیاست، صحافت، وکالت، شاعری، ادبی نثر، ٹریڈ یونین سیاست، طریقہ تدریس اور دانشوری کس کام کی جو انھیں بھوک کے عذاب سے نجات نہ دلاسکی، انھیں پوش آبادیوں میں منتقل نہ کرسکی، پرکشش نوکری نہ دلا پائی، کوئی ٹھیکہ ان کے نام نہ کرسکی اور سواری کے نام پہ انھیں ایک آلٹو یا ویگنار گاڑی کا مالک نہ بنا پائی، کرائے کے مکان سے اٹھا کر پانچ مرلے کے مکان میں منتقل نہ کرسکی۔ ان کے بچے کہتے ہیں کہ بھاڑ میں گئے وہ کروڑوں سفید پوش اور غریب جن کی اجتماعی نجات کا درد انھیں سونے نہیں دیتا اور وہ ان سب کی نجات کی باتیں کرتے ہیں۔

انھیں اپنا باپ، ماں، چچا، تایا، ماموں، وہ سب زھر لگتے ہیں جو اپنی نظریاتی سیاست کو صلیب کی طرح کندھوں پر اٹھا کر پھرتے ہیں اور اپنی قید و بند کے تذکرے فخر سے سناتے ہیں۔ اتنے ذہین تھے تو سی ایس ایس، پی سی ایس کرکے سرکاری بابو کیوں نہ بنے؟ فوج میں کمیشن کیوں نہیں لے لیا؟ سیاست کرنی تھی تو ٹھیکے دار کیوں نہ بنے؟ زرعی زمینیں الاٹ کیوں نہ کرائیں، بلدیہ کی دکانیں کیوں نہ لیں؟ کسی بینک سے قرضہ لیکر کھایا کیوں نہیں؟

بیت المال کے چئیرمین بن کر زکات، عشر، بیواوں کا فنڈ اور غریب دلہنوں کا جہیز فنڈ، تعلیمی وظائف، علاج کی گرانٹ کیوں نہ کھائی؟ کوئی کوآپریٹو سوسائٹی بناکر زمینیں ہڑپ کیوں نہ کیں؟ نوکریاں بیچ کر پیسے کیوں نہ کمائے؟ کسی ایم این اے، ایم پی اے کے فرنٹ مین کیوں نہ بنے؟ صحافی تھے تو ایجنسیوں کے اسکرپٹ رائٹر کیوں نہیں بنے، بلیک میلر کیوں نہ ہوئے؟ وکیل تھے تو ججوں کی دلالی کیوں نہ کی؟ قاتلوں اور لیٹروں کی وکالت کیوں نہیں کی؟ کچی آبادیوں کے سروے میں خاندان کے لوگوں کے نام شامل کیوں نہ کرائے؟ ایل پی جی کے کوٹے کیوں نہ لیے؟

اکثر نظریاتی کارکن تو گھر والوں سے نکمے پن اور نا اہلی کا الزام سن کر ہی جیتے جی مرگئے جو سیاست ان کا فخر تھی وہ کلنک کا ٹیکہ بن گئی اور وہ دوست احباب جو کبھی نظریاتی سیاست میں ان کے ساتھ تھے اور بدل گئے اپنی خوشحالی دکھاکر انھیں تضحیک سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کہا ماں لیا ہوتا تو اس شعر کا مصداق تو نہ ہوتے۔۔

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

Check Also

Kaptan, Gallay Mein Haddi

By Gul Bakhshalvi