Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Syed Yusuf Raza Gilani
  3. Benazir Bhutto Shaheed Ki Judai Ka Zakham

Benazir Bhutto Shaheed Ki Judai Ka Zakham

بے نظیر بھٹو شہید کی جدائی کا زخم

پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاسی رہنماوں، کارکنان اور گمنام ہیروز کی جانب سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کی انگنت مثالوں سے بھری پڑی ہے، آزادی سے قبل اور آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی، مقبول رہنماوں کو اکثر نامعلوم قوتوں نے نشانہ بنایا تاکہ عوام کے حقوق اور خود مختاری کی آواز کو خاموش کیا جا سکے۔ ان عظیم شخصیات میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی شامل ہیں جو نہ صرف پاکستان کی بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھی اور پاکستان کی سب سے بااثر سیاسی شخصیات میں سے ایک تھیں۔ انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

27 دسمبر کی سرد ہوائیں ایک غیر متوقع اور گہری اداسی لے آئیں، جس نے سیاسی اور جمہوری خلا کو مزید گہرا کر دیا، اس دن، راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے دوران، بے نظیر بھٹو کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد پاکستان کے عوام گہرے غم اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا ہو گئے۔

17 سال قبل، ہم نے ایک عالمی رہنما کو کھو دیا۔ تا ہم، ان کا سیاسی فلسفہ آج بھی ہمارے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آج بھی پاکستان کے وفاق کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اپنی زندگی میں انہوں نے مشکلات کا سامنا کیا لیکن ان کی مقصد سے وابستگی غیر متزلزل رہی۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سنبھالی جب آزادیوں کو محدود کر دیا گیا تھا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام تھی اور آزادی اظہار کو غیر جمہوری قوتوں نے کچل دیا تھا، آمر حکومتوں نے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے پاکستانی عوام کی امیدوں کو زندہ رکھا اور جمہوریت اور شراکتی وفاقیت کے نظریات کو فروغ دیا۔ انکی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت نے، صبر، جرات اور برداشت کے ساتھ، ظلم و ستم کی زنجیریں توڑنے کے ان کے عزم کو مضبوط کیا۔

مجھے ان کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں۔ "مشکلات کا سامنا کرنے میں جرات اور وقار ایک عظیم رہنما کی پہچان ہیں"۔

وہ ایک عظیم رہنما تھیں اور اپنی زندگی میں انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا۔ ان کا فلسفہ آج بھی ہمیں اور بہت سے دوسروں کو مشکلات کا مقابلہ کرنے اور سمجھوتہ نہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی جرات کو بھی دیکھا جب انہوں نے ایک مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا انتخاب کیا اور شہادت کو قبول کیا۔ انہوں نے اپنے دو عزیز بھائیوں کی موت کا بھی غم برداشت کیا۔ شدت پسندوں اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ان کی زندگی کو مسلسل خطرات کا سامنا رہا۔ انہوں نے جلاوطنی اور قید کا سامنا کیا، لیکن ان کا عزم چٹان کی مانند مضبوط رہا۔ اپنی ثابت قدمی اور کردار کے ذریعے انہوں نے عوام کے دل جیت لیے۔ تاریخ کے صفحات میں انہیں امید کی کرن، ایک رہنما اور جمہوریت کی علمبردار کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنا ان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو تھا۔ یہ ان کا ویژن اور رہنمائی تھی جس کی بدولت ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا۔ جو پاکستان کے غریب طبقات کی مدد کے لیے ایک نمایاں قدم ہے۔

آج یہ پروگرام ملک بھر میں اپنی رسائی رکھتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد کر رہا ہے۔ جمہوری اقدار کی حامی ہونے کے ناطے، انہوں نے جمہوریت کی بحالی کی کوششوں کی قیادت کی، جو بعد میں سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ "میثاق جمہوریت" کی شکل میں سامنے آئیں۔ انہوں نے نظام کو دوبارہ درست راہ پر لانے کے لیے بات چیت کی بنیاد رکھی، کیونکہ غیر جمہوری حکومتوں کے جمہوریت مخالف اقدامات نے جو جمہوری روح کو نقصان پہنچایا تھا اور عوام اور انکے نمائندوں کے درمیان خلا پیدا کر دیا تھا۔

میثاق جمہوریت نے حقیقی معنوں میں جمہوریت اور پارلیمان کی عظمت کو بحال کیا۔ 1973 کا آئین اپنی اصل شکل میں بحال کیا گیا، جس سے پارلیمانی جمہوریت کو فروغ حاصل ہوا۔ صوبوں کو فیصلہ سازی کے لیے مزید اختیارات دیئے گئے، این ایف سی ایوارڈ کے طریقہ کار پر نظرثانی کی گئی، 18ویں آئینی ترمیم، جی بی ایکٹ، آغاز حقوق بلوچستان اقدام اور دیگر کئی اقدامات سیاسی قوتوں کے درمیان مثاق جمہوریت کی تاریخی مفاہمت کے ثمرات ہیں۔

آج ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ ملک سیاسی غیر یقینی کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ معاشی استحکام ایک بڑا چیلنج ہے۔ سیاسی خلا ایک بار پھر بہت وسیع اور گہرا ہو چکا ہے۔ ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ہم آہنگی اور مفاہمت کے نظریے سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ملکی سیاسی قوتوں کو آپس میں بات چیت کرنی چاہیے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے تاکہ سیاسی اور معاشی ترقی کے ایجنڈے کو اجتماعی طور پر آگے بڑھایا جا سکے۔

آئیے ملک کی ترقی کے لیے ہاتھ ملا ئیں۔ آئیے ایک ساتھ کام کریں تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے اور برداشت، مفاہمت اور باہمی احترام کو فروغ دیا جا سکے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali