Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hum To Kirdar Nahi Badlen Ge

Hum To Kirdar Nahi Badlen Ge

ہم تو کردار نہیں بدلیں گے

وقت بدل رہا ہے۔ امریکی رجیم بدل رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف "گڈ امریکا" والی دھن بجانے لگی ہے۔ اچھا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہ صرف اپنا مفاد ہی دیکھے گی پھر وہ امریکا سے وابستہ ہو یا افریقہ سے۔ امریکا مخالف بیانیوں کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست دو تین سٹانس کے گرد گھومتی نظر آئے گی۔ اینٹی امریکا، اینٹی اسٹیلبشمنٹ اور مذہب کارڈ۔ جس سے بھی کام چل جائے چلا لیا جاتا ہے۔

بدلے بدلے سے انداز ہیں۔ ہوا کا رخ بھی بدلتا لگ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکی کالونی ہے اور پرلطف بات تو یہ ہوئی رچرڈ گرینیل صاحب نے بھی "حقیقی آزادی" لکھ کر ٹویٹ کر دیا۔ مجھے نہیں معلوم ان کی اس سے کیا مراد ہے۔ حقیقی آزادی کا بیانیہ تو امریکا کے گرد ہی بنا تھا اب امریکی صدراتی مشیر بھی حقیقی آزادی مانگ رہا۔ یہ دلچسپ ہے۔

مذاکرات کا عمل شروع ہے اور یہ اچھی بات ہے۔ ان مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ شریک ہے۔ جو بھی ڈیل ہوگی اسٹیبلشمنٹ کی حتمی منظوری سے ہی ہوگی۔ مذاکرات کے نتائج تحریک انصاف کے لیے خوشگوار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی مقتدرہ کو امریکی دباؤ کا سامنا محسوس ہونا شروع ہو چکا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے۔ جیسے ہی ٹرمپ عہدہ سنبھالتے ہیں پاکستان پر دباؤ بڑھے گا۔ امریکا اپنی پراکسی سعودیہ اور آل سعود کے ذریعہ پاکستان سے ڈیل کرتا ہے۔ کچھ دن قبل ہی ایک اہم دورہ آرمی چیف نے کیا ہے اور کراؤن پرنس سے ملاقات ہوئی ہے۔

کچھ منظر نامہ بدلتا محسوس ہو رہا ہے۔ ٹیبل ٹرن ہو رہے ہیں۔ امریکی مداخلت اب امریکی انصاف کے نام میں ڈھل رہی ہے۔ کچھ باخبر لوگوں سے بات رہتی ہے۔ جو منظرنامہ بننے جا رہا ہے اس کے بنیادی پوائنٹس یوں ہیں۔

۔ آنے والے چار پانچ ماہ میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے۔

۔ سنہ 2026 کے آخر میں نئے انتخابات ممکن ہیں۔

ڈیل جو بھی فائنل ہوگی تحریک انصاف اس پر عمل کرنے کی پابند ہوگی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ انتخابات تک کیا پی ٹی آئی ڈیل ملنے اور امریکی سپورٹ کے سہارے اپنے لیے راہ ہموار کرنے کے بعد اپنی پاپولیرٹی برقرار رکھ پائے گی۔ اس کا انحصار اپوزیشن جماعتوں پر بھی ہوگا کہ وہ کیسے اب "امریکی مداخلت" کو اپنے حق میں کیش کرواتے ہوئے کاؤنٹر بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا انحصار معیشت بحالی پر بھی ہوگا۔ کیا موجودہ حکومت نئے انتخابات تک (ڈیڑھ سال بعد تک) عوام کو معاشی ریلیف دے پائے گی۔ ٹیبل پر سب سٹیک ہولڈرز کے لیے کچھ نہ کچھ موجود بھی ہے اور سب سٹیک ہولڈرز بشمول اسٹیبلشمنٹ کچھ نہ کچھ لوز بھی کریں گے۔

گیم سرد مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اب سڑکوں پر احتجاج اور گرما گرمی کی سیاست نہیں ہوگی۔ مذاکرات کا راؤنڈ کچھ ماہ چلے گا اور ہر کسی کو اپنا حصہ یا فیس سیونگ ملے گی۔ کوئی کسی کو دھبڑ دوس یا بلڈوز کر پائے گا نہ مکمل حاوی ہو پائے گا۔

میرا یہ ماننا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ پاپولریٹی کی لہر کے سامنے کوئی زیادہ دیر نہیں ٹک سکتا۔ اس کا انجام طے کرنا ہوگا۔ فوج کا اونٹ ایک بار خیمے میں گھس جائے تو پھر وہ باہر نہیں نکلا کرتا۔ پاکستان جیسے ملک میں تو اب اونٹ ہی خیمے میں ہے باقی سب تو باہر ہو چکے ہیں۔ لایعنی ہو چکے ہیں۔ پاپولر عمران خان کو صرف وزیراعظم عمران خان ہی شکست دے سکتا ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی کر لیں انجام ممکن نہیں۔

کل کو اگر عمران خان حکومت میں آتے ہیں (اگر کا لفظ گہرا ہے اس اگر پر پھر کبھی لکھوں گا یہ تفصیل مانگتا ہے۔ نوازشریف بھی پاکستان کبوتر اڑانے نہیں آئے تھے۔ ڈیل کے بعد وزیراعظم بننے آئے تھے)۔ اگر آتے ہیں تو اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اسی نظام کا حصہ بن کر بیٹھیں گے۔ وہ نظام جو کبھی عوامی مفاد میں ڈلیوری نہیں دے سکا۔ وہ نظام جو عوام کے لیے بنا ہی نہیں اور وہ نظام جس کے چپے چپے پر عسکری مالیاتی ادارے، کمپنیاں اور بزنس گروپس بیٹھے ہیں اور یہی عمران خان کی ہار ہوگی۔ اقتدار بڑی ظالم شے ہے۔ اس کو پانے کے لیے انسان ہر شے روند بھی سکتا ہے اور پانے کے بعد ہر حکمران ذلیل وخوار ہو کر نکلا ہے۔ کم سے کم پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔

وہی امریکا، وہی اسٹیبلشمنٹ اور وہی نظام ہے۔ باقی داستان اپنا حصہ لینے کی ہے۔ جس کو حصہ مل جاتا ہے وہ خوش۔ جس سے چھِن جاتا ہے وہ اینٹی امریکا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتا ہے۔ یہ دائرے کا سفر ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔

باقی خوش آئند یہ ہے کہ مار دھار، کنٹینر سیاست اور اوئے تیری پین دی والی زبان میں کمی آئے۔ بات چیت سے راستہ نکلے اور اپنا حصہ پا کر انقلاب سکون کی کیفیت اختیار کرے۔ الیکٹورل نظام سے کبھی کوئی منتخب نہیں ہوتا۔ منظوری اور دست شفقت شرط ہے۔ آج جس کے سر وہ حاکم، کل جس کے سر وہ آقا۔ ہوا کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ جیسے بابِ توبہ کبھی بند نہیں ہوتا ویسے بابِ اسٹیبلشمنٹ (عالمی ہو یا مقامی) کبھی بند نہیں ہوتا۔ دستک دینا شرط ہے۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے اپنی دستک دی تھی۔ تحریک انصاف اپنی دستک دے رہی۔

ہر سائیڈ کے کی بورڈ وارئیرز ہمیشہ رہے ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا کام بس حکم کی تعمیل، اپنی پارٹی پالیسی کا جھوٹا سچا پھیلاؤ اور جائز ناجائز دفاع ہوتا ہے۔ باقی فالورز دیکھا دیکھی لگ جاتے ہیں۔ بھائی بھائی سے لڑے یا دوست دوست سے اُلجھ جائے۔ یہی سیاست کا چلن ہے اور سیاست کا رنگ گرے ہے۔ یہاں کچھ بلیک اینڈ وائٹ نہیں۔ معاملات بلیک اینڈ وائٹ ہوتے ہی نہیں۔ نظریہ، بیانیہ اور انقلاب کی عمر ڈھائی تین ماہ یا سال دو سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بس جتنا عرصہ چلتی رہے چلاتے رہو۔ جیسے ہی اقتداری مقصد پورا ہو وہیں سب کچھ دم توڑ دیتا ہے۔ یہ ننگی اور پتھریلی حقیقت ہے۔ باقی آپ بیشک اپنے خیالوں کی دنیا بسائے بیٹھے رہیں۔ جھومتے رہیں۔ گاتے یا روتے رہیں۔ سیاسی کارکن یا سپورٹر صرف ایک سیڑھی ہے جس کے ہر پائیدان پر چڑھتے چڑھتے بلآخر قائد جب اپنے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے "سب ٹھیک ہے۔ اب آپ آرام کریں۔ اس سفر میں جو مر گئے وہ اب شہید ہیں ان کے لیے دعا فرمائیں"۔

سماج کیوں نہیں بدلتا، نظام کیوں نہیں بدلتا اور راہنما کیوں نہیں بدلتے۔ ان سوالات کا جواب ہمارے ہر فرد کے اندر ہی مضمر ہے۔ جب آپ اپنے سماجی، سیاسی اور مذہبی روئیے نہیں بدلتے تو یہ سب کیسے بدلے۔ ہم کیسے عجب لوگ ہیں۔ جس کو ووٹ سپورٹ دیتے ہیں اس سے احتساب نہیں مانگتے۔ اس پر سوال نہیں اُٹھاتے۔ اس پر نگاہ فوکس ہی نہیں کرتے۔ جس کو ووٹ سپورٹ نہیں دیتے اس سے احتساب بھی مانگتے ہیں، اس پر مکمل فوکس ہوتے ہیں، اس کو گالی بھی دیتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ جس کو منتخب کرنے کے لیے سپورٹ دی اس سے اپنے جواب مانگو کہ کیا کر رہے ہو۔ "مجھے رہزنوں سے گِلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے"۔ ہم من حیث القوم سٹاک ہوم سینڈوم کا شکار ہیں۔ ایسی نفسیاتی حالت جس کے زیر اثر اپنے ہی اغوا کار سے انسان محبت کرنے لگ جاتا ہے۔

آج کوئی طاقت میں ہے کل نہیں رہنا۔ کل کی ڈائنامکس اور ہوں گی۔ پیراڈئم ہی مکمل شفٹ ہو جاتا ہے۔ ایک آرمی چیف بدلتا ہے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ سپرپاور کا صدر بدلتا ہے ورلڈ آرڈر بدلنے لگتا ہے۔ بیانیہ استعمال ہونے کے بعد ٹشو پیپر بن جاتا ہے۔ نیا مرحلہ نیا بیانیہ اور ہم سب اپنے تن من دھن کی بازی یہ سوچ کر لگا دیتے ہیں کہ ہم حرفِ آخر ہیں اور ہم سے ہی تبدیلی آئے گی۔ اسی سوچ کے زیر اثر آپس میں لڑ مریں گے، توں تڑاں پر اُتریں گے، مرنا جینا ختم کریں گے اور پھر کسی اوپر والے کا ایک اشارہ اور سب کچھ تبدیل۔ آپ رہ جاتے ہیں ہاتھ میں جھنجھنا لیے اور المیہ یہ بھی اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے یا سبق سیکھنے کی بجائے ہم پھر وہی پارٹی جھنجھنا بجانے لگتے ہیں۔ کیوں کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا کوہ ہمالیہ سر کرنے جیسا ہے۔ "ہمنشیں سانس پھُول جاتی ہے"۔

لکھتے لکھتے احمد ندیم قاسمی کی غزل یاد آ گئی۔

خوئے اظہار نہیں بدلیں گے
ہم تو کردار نہیں بدلیں گے

غم نہیں بدلیں گے یارو، جب تک
غم کے معیار نہیں بدلیں گے

لوگ آئینے بدلتے ہیں، مگر
اپنے اطوار نہیں بدلیں گے

تم نہ بدلو گے، تو زندانوں کے
در و دیوار نہیں بدلیں گے

قافلے راہ بدلنے پہ مصر
اور سالار نہیں بدلیں گے

Check Also

Bangladesh Bhi Bharat Mukhalif Saf Mein

By Hameed Ullah Bhatti