امریکہ کے پیدائشی مسلمان شہریوں کی بھی ممکنہ کمبختی
ٹرمپ اور اس کی جماعت کو نہایت چائو اور ضد کے ساتھ نومبر 2024ء میں ہوئے انتخابات کے ذریعے اقتدار میں واپس لانے والے محض تارکین وطن کے دشمن ہی نہیں۔ مسلمان بھی ان کی نگاہ میں امریکی سرزمین پر ناقابل برداشت ہیں۔ اسی باعث وہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ 20جنوری کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چند ایسے احکامات جاری کرے گا جو نشان زد ہوئے غیر ملکیوں کو ریوڑوں کی صورت امریکی سرحدوں سے باہر نکالنے کے علاوہ مسلمانوں کی باقاعدہ جاری ہوئے ویزوں کی بدولت بھی امریکہ آمد کو تقریباََ ناممکن بنادیں گے۔
ٹرمپ سے انتہا پسند نسل پرستوں نے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ اس قدر موثر ہیں کہ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں نے سرما اور کرسمس کی چھٹیوں کی وجہ سے اپنے والدین وغیرہ سے ملنے گئے طالب علموں کو پیغام بھجوائے کہ وہ ہر صورت 20جنوری سے قبل امریکہ لوٹ آئیں تاکہ ان کی تعلیم مکمل ہونے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چند امریکی یونیورسٹیوں کی اپنے غیر ملکی اور خصوصاََ مسلمان طالب علموں کے حوالے سے گھبراہٹ کی خبر مجھے ایک قریبی دوست کی بدولت ملی جن کی بچی ان دنوں ایک مشہور امریکی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ ان سے گفتگو کے بعد مجھے کم از کم مزید تین پاکستانی والدین نے اپنے بچوں کے بارے میں بھی ایسی ہی اطلاعات دیں۔
سچی بات یہ بھی ہے کہ چند روز قبل ٹرمپ نے جب یہ بیان دیا کہ امریکی یونیورسٹیوں میں کچھ سال گزارنے والے غیر ملکیوں کو گرین کارڈ بطور حق ملنا چاہیئے تو مجھے بہت اطمینان محسوس ہوا۔ میں نے فرض کرلیا کہ امریکی تعلیمی اداروں میں ٹرمپ کے بعد پھیلی گھبراہٹ کا علم نو منتخب صدر کو بھی ہوچکا ہے۔ اسی باعث موصوف مذکورہ بالا بیانات کے ذریعے انگریزی محاورے والا "چِل (Chill)"رہنے کا پیغام دے رہے ہیں۔
سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی مگر نیواورلینز میں دہشت گردی کی واردات ہوگئی۔ یہ شہر دریا کے کنارے واقع ہے۔ یہاں کا ایک علاقہ فرانس سے منسوب ہے۔ یہ بہت پررونق شہر ہے جہاں ہر ملک کے کھانے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریستورانوں اور سڑکوں پر تقریباََ 24گھنٹے لوگ موسیقی سے لطف اٹھاسکتے ہیں۔ اسی باعث اس شہر کو Easy" "Big بھی پکارا جاتا ہے۔ 1990ء کے برس میں دو دن کے لئے اس شہر گیا تھا اور وہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد ہی یقین آگیا کہ یہ شہر کھلاڈلا اور رنگین مزاج ہے۔ اس شہر میں سال نو کی تقریبات کے دوران موسیقی اور رقص کے گڑھ مشہور ہوئے ایک مقام پر جمع ہجوم پر تاہم ایک شخص نے گاڑی چڑھا دی۔
یہ کالم لکھنے تک اس کی چڑھائی کی وجہ سے 15لوگ مرچکے ہیں۔ لوگوں کو کچلتے وقت گرفتاری سے بچنے کے لئے اس نے وہاں موجود پولیس پر بھی گولیاں برسائیں۔ اسے مگر جوابی فائرنگ سے ہلاک کردیا گیا۔ قتل کردئے جانے کے بعد حملہ آور کی شناخت کا سلسلہ شروع ہوا تو خبر ملی کہ وہ ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن کا رہائشی تھا۔ اس کا نام ہے شمس الدین جابر۔ اس کا نام ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ مسلمان تھا۔ یہ مسلمان مگر پیدائشی طورپر امریکی شہری بھی تھا۔ 2007ء سے 2022ء تک وہ امریکی فوج میں ملازم بھی رہا۔
15برس کی ملازمت کے دوران وہ ایک سال کے لئے افغانستان میں بھی تعینات رہا۔ اس کے فوجی پس منظر کے بارے میں جو معلومات ابھی تک ہمارے سامنے لائی گئی ہیں واضح طورپر عندیہ دے رہی ہیں کہ شمس الدین کو دہشت گردگروہوں کے ابلاغی نظام پر نگاہ رکھنے کی تربیت اور فرائض سونپے گئے تھے۔ اتنے برس تک مسلم انتہا پسندوں کی سوچ پر توجہ دینے کی وجہ سے اس کی تالیف قلب ہوگئی اور یہ بات حیران کن انہونی نہیں ہونا چاہیے۔
شمس الدین نے مگر نیو اور لینز میں ہجوم پر جس گاڑی کے ذریعے دھاوا بولا اس میں سے داعش نامی انتہا پسند مسلم تنظیم کا پرچم بھی دریافت ہوا ہے۔ علاوہ ازیں چند امریکی ذرائع ابلاغ یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ اس نے بذاتِ خود سال نو کی واردات ڈالنے سے پہلے چند وڈیوز ریکارڈ کیں اور خود کو داعش کا فدائی بتایا۔ شمس الدین کی ذات سے متعلق تحقیقات پرمامورافراد کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ Wolf" "Lone یا تنہا انتہا پسند نہیں تھا۔ کم از کم 3مرد اور ایک عورت بھی اس کے ساتھی اور سہولت کار بتائے جارہے ہیں۔ ان کا سراغ لگانے اور گرفتاریوں کی کوشش ہورہی ہے۔ غالباََ یہ کالم چھپنے تک شمس الدین کے بارے میں کافی معلومات میسر ہوجائیں گی۔
فی الوقت مگر مجھے فکر یہ لاحق ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کے بطور امریکی صدر حلف اٹھانے سے قبل ایک ہولناک واقعہ ہوا۔ جس میں 15افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس ہلاکت کا ذمہ دار شخص مسلمان ہے۔ اہم ترین پہلو میری نگاہ میں یہ ہے کہ شمس الدین پیدائشی امریکی شہری ہونے کے علاوہ وہاں کی فوج کا 15برس ملازم رہا اور اپنی ملازمت کے دوران افغانستان جیسے ملکوں میں "حساس" فرائض سرانجام دیتا رہا۔ مجھے خدشہ ہے کہ شمس الدین کے ماضی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ٹرمپ کے انتہا پسند حامی یہ فضا بنانے کی کوشش کریں گے کہ امریکی عوام کی اکثریت کو "خبردار" کیا جائے کہ تعلیم یا ملازمت کے لئے دیگر ممالک سے آئے مسلمان ہی ان کے ملک کے لئے "خطرہ" نہیں۔
امریکہ کا پیدائشی مسلمان شہری بھی وہاں کے دفاعی اداروں میں کئی برس گزارنے کے باوجود "مسلمان" ہی رہتا ہے۔ مسلمانوں کو لہٰذا نہ صرف غیر ممالک سے امریکہ آنے سے روکا جائے بلکہ یہاں کے پیدائشی مسلمان شہریوں کی بھی خوب چھان بین ہو اور انہیں کم از کم امریکہ کے دفاعی اداروں سے ہر صورت دور رکھا جائے۔ سال نو کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ کے ایک مشہور شہر میں ہوا واقعہ ٹرمپ کو اپنے عہدے کا حلف لینے کے بعد انتہا پسند نسل پرستوں کی دل جوئی کیلئے چند سخت فیصلے لینے کو اُکساسکتا ہے۔ جارج بش کے بعد ری پبلکن پارٹی سے آیا ایک اور صدر بھی لہٰذا مسلم عوام اور ممالک کو "دہشت گردی" کے ساتھ نتھی کرکے دیکھنے کو مجبور ہوجائے گا۔