Waldain Bachon Ke Khud Mahir e Nafsiyat Banen
والدین بچوں کے خود ماہر نفسیات بنیں
والدین بچوں کے اولین استاد اور ماہر نفسیات ہوتے ہیں۔ ماں زندگی کی تاریک راہوں کی روشن مینار اور باپ ٹھوکروں سے بچانے والا مضبوط سہارا ہوتا ہے۔ ماں کبھی بھی اپنی وفاؤں کا صلہ اولاد سے نہیں مانگتی جس گھر میں ماں ہوتی ہے اس کی درودیوار، ہر گوشہ ماں کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درسگاہ ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ ماں باپ کا ایک پلیٹ فارم پر ہونا اولاد کی دینی، دنیاوی، روحانی، اخلاقی، سماجی ہر طرح کی تعلیم و تربیت میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بچے پرورش کے دوران اپنے والدین کے تعلقات سے متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں کے آگے بڑھنے میں والدین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے کی الجھنوں کے سلجھاؤ، تعاون یا اشتراک میں ماں باپ ہی بچے کے لیے پہلا سنہری نمونہ ہوتے ہیں۔
والدین بچوں کے ساتھ سائیکلوجیکل اٹیچمنٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بچے گمراہ کن راہوں اور زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ماہر نفسیات جون بولبی نے اپنی کتاب The Secure Baseمیں لکھتے ہیں بچے کی زندگی کے پہلے دو سال جذباتی رشتے کے حوالے سے بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ رشتہ ماں کا بھی ہو سکتا ہے باپ کا بھی ہو سکتا ہے۔ جس میں مادرانہ شفقت اور محبت کے جذبات ہوں کھانا، پینا، سونا، جاگنا، کھیلنا، سیروتفریح کا خیال رکھتا ہو۔ جب بچے کو بڑھوتری کے پہلے دو سال اپنے ماں بات سے جذباتی محبت کا محفوظ رشتہ ملتا ہے تو اس کی شخصیت میں ایک احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے اور جن بچوں کے بچپن کے یہ پہلے دوسال ماں باپ کی لاپروائی کی نظر ہو جائیں تو ایسے بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے انکی شخصیت میں کمی اور کجی رہ جاتی ہے۔
بولبی کی تحقیق سے قبل ماہرین اور ماہرین نفسیات کا خیال تھا کہ بچے اور ماں کا رشتہ دودھ پینے اور پلانے کی وجہ سے مضبوط ہوتا ہے مگر بولبی نے اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے دو بندر مائیں بنائیں۔ ایک ماں لوہے کی تھی اور دوسری ماں اون کی بنی تھی پہلی کے پاس دودھ کی بوتل تھی جبکہ دوسری کے پاس دودھ کی بوتل نہیں تھی۔ بولبی نے جب بندر کے بھوکے بچوں کو چھوڑ دیا تو وہ پہلے دودھ کی بوتل والی ماں کے پاس گئے چند منٹ دودھ پیتے رہے پھر اسے چھوڑ کر نرم و لطیف حرارت سے مدہوشی کی برسات سے بھری ماں سے جا کر لپٹ گئے بولبی نے بتایا کہ محبت و شفقت، نرمی دودھ سے بھی اہم ہے ماں محبتیں لٹانے والی احساس سے گوندھی ہوئی شفیق اور مہربان جو اپنے بچوں کے لیے اپنے سینے میں چاہتوں کا سمندر رکھتی ہیں۔
قارئین! خاکسار کو تدریس کے شعبے میں بحثیت استاد علم کی شمع تھامے 2 دہائیاں گزر چکی ہیں شاگردوں کی فہرست بہت طویل گزری اور گزر رہی ہے۔ سینکڑوں ہی طلباء و طالبات جو کسب فیض سے مستفید ہوئے۔ ان میں بہترین کامیاب طلباء کا تناسب دیکھا جائے تو یہ وہ طلباء تھے۔ جن میں والدین کی جانب سے نفسیاتی طور پر سُدھ بُدھ، آداب معاشرت، اُصول و ضوابط، استاد کی عظمت و رفعت پیوست تھی۔ اپنے بچوں کی نفسیات ان کی ہر طرح کی حرکات و سکنات، طور طریقوں، رویوں، طرز عمل، صحت کے معاملات تک سے ہی باخبر نہیں رکھا بلکہ ہر طرح کے تعاون، سختی تک کی یقین دہانی کروائی۔
آج ان بچوں کی روشن مستقبل کی کامیابیاں آسمان کی ثریا کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ مگر وہ ذہنی پسماندگی کے شکار بدقسمت جو استاد کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر اسے نوچنے کے لیے اس کی گردن پر پاوں رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور والدین ان کی گنجلک کیمسٹری سمجھنے کی بجائے انکو مزید ہوا دے کر ایسی تھپکی دے کر اس کی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو استاد کے مقابلے میں حد سے زیادہ اہمیت دے کر بچوں کی نظروں میں استاد کی اہمیت اور مرتبے کو کم کر دیتے ہیں آخر یہ کیسی نفسیات ہے؟ آخر آپ اپنے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کیسے کھیلواڑ کر سکتے ہین؟ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی بجائے کہ بچہ کس چیز سے بھاگ رہاہے۔
بچوں کے نظروں میں بہترین والدین بننے کی بجائے ان کے دماغ سے خناس نکالیں، بھٹکے ہووں کو راہ راست پر لائیں۔ امام الائمہ سراج الغمہ سیدناحضرت امام ابو حنیفہ ارشاد فرماتے کہ میں نے زندگی بھر اپنے استاد کے گھر کی جانب پاوں نہیں کیے۔ امام احمدؒ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔
ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔ شیخ سعدی کا ایک فارسی شعر ہمارے لٹریچر میں کثرت سے ملتا ہے وہ کہتے ہیں۔۔
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می اول چوں نہد معمار کج
کہ اگر معمار عمارت بناتے وقت بنیادی اینٹ ہی ٹیڑی رکھے گا تو اس کے اوپر جو دیواریں اٹھائے گا وہ ثریا تک لے جائے وہ ٹیڑھی ہی رہیں گی۔
ایک پرانی کہاوت ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی تعلیم تک ہی محدود نہ رکھو کیونکہ وہ ایک اور عہد کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ بطور استاد تجزیہ کیا ہمیں اپنے بچوں کو صرف کامیاب ہونا نہیں ان کی ہار پر انہیں بہترین رہنمائی بھی کرنی چاہیے۔ ہر وقت بچوں کے سامنے اول پوزیشن کی ڈیمانڈ رکھنا، پہلی پوزیشن پر قیمتی تحائف دیناان سے تقاضا کرنا کہ اسے اول پوزیشن ہی برقرار رکھنی ہوگی۔ یہ غیر معمولی دباؤ سے بچے کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسا کرنے سے صرف اس بچے کی زندگی میں نفسیاتی پیچیدگیاں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے ذہنی برتری اپنی اَنا، اپنی کمیاں، غلطیاں، کوتاہیاں، حماقتیں اور ناکامیوں کا ملبہ دوسرون پر ڈالنے کا عادی ہو جاتا ہے۔
موجودہ دور میں بچوں اور والدین کے درمیان سوشل میڈیا نے اتنا خلا پیدا کر دیا ہے جسے بغیر کسی عملی ہوم ورک اور پلانگنز کے پُر نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر والدین کو بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے بارے میں اور بچوں کو والدین کے ساتھ برتاؤ کے مفید مشوروں سے مستفید کیا جا رہا ہے۔ والدین بچوں کو ویڈیوز سینڈ کرکے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو رہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب بچے والدین کو اپنی من پسند خواہیش کی تکمیل ویڈیوز کے زریعے کر رہے ہیں۔ کیا والدین سوشل میڈیا کے نام نہاد فنکاروں کے زریعے بچوں کی تربیت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا ہم واقعی اپنے اسلاف کی روایات کے آمین ہیں؟ آج گھروں میں کتب خانے، کتابوں کے حوالہ جات کہاں رہ گئے؟ حالانک بچے سے متعلق نفسیاتی معلومات کا ایک گراں قدر خزانہ استاد کے پاس ہوتا تھا۔
بچوں کی زندگی ایک ٹرائی اینگل ہوتی ہے جس کے اوپر والے کونے میں بچہ اور نیچے والے دونوں کونوں میں والدین اور استاد دونوں کا مرکز نگاہ ہوتا ہے۔ بچوں کے طور طریقے ان دونوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ یہ بات اظہر من شمس ہے کہ استاد اور والدین بچوں کو مشکل پر قابو پا سکتے ہیں ایسا کوئی مرض نہیں جس کا یہ مرہم نہیں بن سکتے۔ ایسا کوئی دریا نہیں جس پر یہ پل نہ باندھ سکے۔ ایسی کوئی دیوار نہیں جسے یہ گرا نہ سکے مگر یہ سب تب ممکن ہے جب والدین بچوں کے ساتھ جذباتی بینک اکاونٹ کھولنے کی بجائے، انکی نفسیات کو سمجھیں، استاد کا احترام سیکھائے تاکہ استاد انکے باہمی اشتراق سے بچوں میں شاہین کی اوصاف اجاگر کر سکیں۔ پاکستان زندہ باد۔۔