Dunya Ka Naya Khel Ya Wohi Purani Kahani?
دنیا کا نیا کھیل یا وہی پرانی کہانی؟
نیا سال، نئے وعدے۔ لیکن دنیا کی پرانی فطرت یہی ہے کہ وعدے کیے جاتے ہیں اور پھر دھوئیں میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ 2024 کا غبار چھٹا، تو پیچھے بے یقینی، مایوسی اور کچھ مصنوعی خوشیاں چھوڑ گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ 2025 ہمیں کیا دے گا؟ شاید ایک بہتر مستقبل؟ یا پھر وہی دھندلی تصویر جس میں خواب اور حقیقت ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں؟
دنیا کی سیاست کا میدان ہمیشہ سے شطرنج کی بساط رہا ہے، جہاں مہریں بدلتی رہتی ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔ امریکہ اور چین کی سرد جنگ 2025 میں مزید "گرم" ہونے کا امکان رکھتی ہے۔ ایک طرف چینی ڈریگن اپنی معیشت اور فوجی طاقت سے دنیا کو دھمکا رہا ہے، تو دوسری طرف امریکی عقاب اب بھی خود کو آسمان کا بادشاہ سمجھتا ہے۔ باقی دنیا بیچاری مہروں کی طرح ادھر ادھر گھسٹ رہی ہے، جیسے کسی بچے نے اپنی پرانی کھلونے کی بساط پر زبردستی بٹھا دیا ہو۔
روس اور یوکرین کی جنگ کا کیا ہوگا؟ شاید 2025 میں ہمیں کوئی "نئی پیش رفت" ملے، جیسے جنگ کی شدت بڑھ جائے یا پھر اس پر بات چیت کے کچھ "حوالے" دیے جائیں۔ مغرب اور روس کی لڑائی وہ تماشا بن چکی ہے، جس میں دونوں طرف کے عوام بھوک، مہنگائی اور بے بسی کے مارے تخت کے نیچے کچلے جا رہے ہیں اور بادشاہ اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کردار اب مذاق بن چکا ہے۔ دنیا کے فیصلے وہ ممالک کرتے ہیں جن کے پاس سب سے بڑے بم اور سب سے زیادہ پیسے ہیں۔ اقوامِ متحدہ تو بس وہ سنیاسی ہے جو اپنے بھاشن سے سمجھتا ہے کہ دنیا بدل جائے گی، لیکن حقیقت میں کسی کی سنتا ہی نہیں۔
معیشت؟ آہ، یہ ایک ایسی گاڑی ہے جس کے ایک پہیے پر مہنگائی کا غبارہ بندھا ہے اور دوسرے پہیے پر قرضے کی زنجیر۔ ترقی پذیر ممالک کی حالت ایسی ہوگئی ہے جیسے کسی نے ان کے کھانے کی پلیٹ سے آخری نوالہ بھی چھین لیا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک بھی اپنی "سیکورٹی" کے بہانے معیشت کو فوجی بجٹ میں جھونک رہے ہیں۔ 2025 میں شاید ہم ایک نیا معاشی بحران دیکھیں، یا شاید کسی "انقلابی" حل کا اعلان ہو، جو پھر اگلے دس سال تک "زیر غور" رہے۔
ماحولیاتی تبدیلی وہ مہمان ہے جسے ہم نے خود دعوت دی اور اب وہ ہمارے گھر کی دیواروں کو توڑ کر اپنا سامان جما چکا ہے۔ 2024 میں سیلاب، آگ اور قحط نے دنیا کو سبق دیا، لیکن 2025 میں بھی ہم وہی بے پروائی کا لباس پہنے رہیں گے۔ موسمیاتی کانفرنسز تو ہوں گی، وعدے بھی کیے جائیں گے، لیکن اصل کام؟ وہ شاید آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، کیونکہ ہم تو بس تصویریں کھنچوانے اور تالیاں بجوانے میں مصروف ہیں۔
ٹیکنالوجی کی دنیا میں، مصنوعی ذہانت کا شور ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک "نیا خدا" بنا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا انسانوں کی نوکریاں، پرائیویسی اور ذہنی سکون چھیننے آ رہا ہے۔ 2025 میں ہم شاید اور زیادہ اسکرینوں میں قید ہو جائیں، یا شاید کوئی نئی ایپ آئے جو ہمیں "خوشی" کا فوری نسخہ دے۔ لیکن اس خوشی کی قیمت؟ ہماری انسانیت۔
خلائی مشنز؟ انسان خلا میں جانے کے خواب دیکھ رہا ہے، کیونکہ زمین پر تو حالات خراب ہو چکے ہیں۔ شاید 2025 میں ہم مریخ پر کوئی "نیا گھر" بنانے کی خبر سنیں، لیکن زمین پر وہ لوگ جن کے پاس چھت نہیں، ان کے لیے یہ سب باتیں بیکار ہیں۔
انسانی زندگی میں تعلقات کا حال بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے پردے کے پیچھے جھوٹ، حسد اور دکھ چھپے ہیں۔ ہم پہلے سے زیادہ تنہا ہیں، پہلے سے زیادہ پریشان۔ 2025 میں شاید کوئی "مینٹل ہیلتھ ایپ" مشہور ہو جائے، لیکن کیا یہ ایپس وہ خلا بھر سکتی ہیں جو انسانیت کے اندر پیدا ہو چکا ہے؟ شاید نہیں۔
تعلیم کا میدان بھی پیچھے نہیں۔ نئی نسل کو ہم رٹنے والے روبوٹس میں تبدیل کر رہے ہیں، جنہیں صرف نمبر اور ڈگری کی فکر ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں اور تنقیدی سوچ؟ ان کے لیے وقت کہاں؟ 2025 میں شاید تعلیمی نظام کا ایک اور "انقلابی" منصوبہ آئے، لیکن زمین پر بچوں کی آنکھوں سے خواب ویسے ہی غائب رہیں گے۔
دنیا میں جہاں جنگ، سیاست اور معیشت کے مسائل ہیں، وہاں امید بھی ہے۔ امید وہ چیز ہے جو انسان کو زندہ رکھتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ امید حقیقی ہے یا بس ایک اور دھوکہ؟ 2025 میں ہمیں خود سے یہ سوال بار بار پوچھنا ہوگا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟
شاید 2025 ہمیں کچھ اچھا دے، شاید کچھ نیا۔ لیکن اگر ہم نے اپنی پرانی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا، تو یہ نیا سال بھی بس پرانی داستان کا ایک اور باب بن کر رہ جائے گا۔ خواب دیکھنا آسان ہے، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے جرات چاہیے۔ کیا ہم یہ جرات دکھائیں گے؟ شاید یہی 2025 کا سب سے بڑا سوال ہے۔