Nojawano Ko Boorha Hone Dain
نوجوانوں کو بوڑھا ہونے دیں
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جب خلیفہ بنے تو مختلف علاقوں کے سرکردہ لوگوں کے وفود آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ جب حجاز کا وفد آیا تو ایک کم سن لڑکا وفد کی ترجمانی کے لیے آگے بڑھا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا بیٹے آپ بیٹھیے کسی بڑے کو بات کرنے کا موقع دیجئے وہ لڑکا بولا، اگر اہلیت عمر سے ثابت ہوتی تو امت میں آپ سے زیادہ خلافت کے حق دار موجود تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ خاموش ہو گئے اور لڑکے کو گفتگو کرنے کا اشارہ کیا۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جتنے وفود حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دربار میں حاضر ہوئے تھے ان سب میں بہترین گفتگو کرنے والا وہی کم سن لڑکا تھا۔
محض انسان کی عمر سے اس کی فہم و فراست اور اہلیت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا کہ فلاں کی عمر اور تجربہ زیادہ ہے لہذا وہ کسی مقام کا زیادہ حق دار ہے سراسر نا انصافی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر نوجوان تو زندگی کے کسی بھی شعبہ کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی آبادی کا چھٹا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی آبادی کا نصف حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اس نصف آبادی کے مستقبل اور اس کے مسائل کے حل کے لئے کوئی ادارہ حکومتی سطح پر کام نہیں کر رہا۔ اگر کوئی کام ہو بھی رہا ہے تو صرف سیمناروں اور کانفرنسوں کی حد تک ہے۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجہ سے بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل سے زرخیز ذہن بے کار اور فارغ رہ کر بنجر ہونے اور تخریبی کاموں کا حصہ بننے کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔
ہمارے ہاں نوکری کے حصول کے لیے معیار قابلیت کی بجائے کم از کم چار سالہ عملی تجربے سے بات شروع ہوتے ہوتے پندرہ سال تک جا پہنچتی ہے۔ اگر کوئی کسی نوکری کے لیے تمام تعلیمی و دیگر مندرجات پر پورا اترتا ہے اور اس کے پاس کہیں ملازمت کا تجربہ نہیں ہوتا اسے نوکری نہیں دی جاتی اور اگر کسی کے پاس کم از کم مطلوبہ تجربہ ہو بھی تو اس پر زیادہ تجربہ کار بزرگ حضرات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوان بہر صورت نوکری سے محروم رہتا ہے۔ چنانچہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو فوری طور نوکریاں نہیں ملتیں۔ دوسری طرف کالجوں، یونیورسٹیوں، مختلف صوبائی و وفاقی محکموں اور اداروں میں ریٹائرڈ افراد ملازمتوں میں توسیع لے لیتے ہیں اور نئے آنے والوں کے لیے نہ جگہ چھوڑتے ہیں نہ جگہ بناتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے تجربہ، علم اور قابلیت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن نوجوانوں کی استعدادِ کار اور نئی ٹیکنالوجی، نئے علوم کو سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے چاہیں تا کہ وہ اپنے پیش روؤں کی جگہ سنبھال سکیں۔
حکومتی سطح پر نوجوانوں کے لیے جو پروگرام بنتے ہیں وہ ایک فلاپ فلم کی طرح چلتے ہیں، جن کا چلنے سے پہلے خوب چرچا ہوتا ہے لیکن چلنے کے بعد پردہء سکرین سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یاد ہوگا کہ پنجاب گورنمنٹ نے یوتھ انٹرن شپ پروگرام شروع کیا تھا۔ جس میں ہزاوروں نوجوانوں کو انٹرن شپ لیٹرز دیے گئے تھے۔ لیکن ان ہزاروں میں سے صرف تھوڑے سے نوجوانوں کو انٹرن شپ دی گئی۔ وہ بھی اس طرح سے کہ جس نے ایم بی اے کیا ہوا تھا یا آئی ٹی میں ایم فل اس کو پرائمری اسکول میں استاد مقرر کر دیا گیا۔ اب اس پرائمری اسکول میں ٹیچنگ کے تجربہ کے ساتھ اسے کون سی کمپنی، کون سا محکمہ یا ادارہ نوکری دے گا؟ ایسے پراجیکٹس صرف دکھاوا ہوتے ہیں۔ جن کا حقیقی معنوں میں نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ سفارش کلچر سے بھی میرٹ کا خون کیا جاتا ہے اور بہت سے قابل نوجوان مایوس ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں۔
نوجوانوں کی بے روزگاری کا ذمہ دار ہمارا نظامِ تعلیم اور خود طلبا بھی ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم نوجوانوں کے اندر فکر و شعور اور عملی سوچ پیدا نہیں کرتا۔ یہ نظام نوجوانوں میں صرف نوکری کا شعور پیدا کرتا ہے کہ پڑھ لکھ کر وہ کوئی افسر بنیں گے۔ ان کے اندر اس بات کا شعور بیدار نہیں کرتا کہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔ بے شمار کاروبار ہیں جو کم بجٹ سے شروع ہوتے اور منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ نوکری نہ ملنے کی صورت میں کاٹیج انڈسٹری شروع کی جا سکتی ہے۔ یا اپنے شعبہ ہائے تعلیم کے مطابق کوئی کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے۔ آئی ٹی کے نوجوان اپنا سوفٹ وئیر ہاوس بنا سکتے ہیں۔ ماس کمیونیکشن کے طالب علم وڈیوگرافی اور فوٹو گرافی کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ ایجوکیشن کے طالب علم سکول بنا سکتے ہیں اور اسی طرح بے شمار کام ہیں۔ لیکن اس کے لیے نوجوانوں کے افسر شاہی والے مزاج کو بدلنے اور یہ سمجھانے کی ضروت ہے کہ تعلیم اور کاروبار دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ پڑھا لکھا بزنس مین ان پڑھ بزنس مین سے زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف رٹہ سسٹم، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات پیسے دے کر لکھوانے کے رجحان کی وجہ سے نوجوان اعلیٰ ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ریسرچ میں وہ صفر ہوتے ہیں اور ان کے اندر عملی قابلیت کا فقدان ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ نوکری حاصل کرنے میں اس لیے بھی ناکام رہتے ہیں کہ وہ اپنے اندر کوئی عملی صلاحیت پیدا نہیں کرتے اور ڈگری حاصل کر لینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ یوتھ کے لیے فلاپ پروگرامز کی بجائے ان کے لیے چھوٹے کاروبار میں مدد کے پراجیکٹس شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کا طریقہ کار مختصر اور قابل عمل ہو اور یہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر بلا امتیاز چلتے رہیں۔ حکومتوں کے بدلنے سے یہ پراجیکٹس ختم نہ ہوں۔ نوجوانوں کے بوڑھا ہونے کا انتظار نہ کیا جائے۔ ان کے لیے مواقع بنائے جائیں تاکہ ان کی جوانی اور توانا سوچ سے مستفید ہوا جا سکے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایکسٹینش اور ساٹھ سال سے زائد عمر والے افراد پر بذریعہ کنٹریکٹ بار بار تقرریوں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اس سے نوجوانوں کے لیے لیے جگہ پیدا ہوگی، انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار کے مواقع ملیں گے، بہت حد تک ان کے نفسیاتی اور معاشی مسائل حل ہوں گے اور ایک صحت مند خوشحال معاشرہ پروان چڑھے گا۔