Pakistani Siasat Ka Afsanvi Tajzia
پاکستانی سیاست کا افسانوی تجزیہ
کہانی ہربار اسی طرح دہرائی جاتی ہے۔ ہدایتکار کہانی تبدیل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا، بس کردار بدل دینے پرہی اکتفا کرتا ہے اور بے شعور لوگ کرداروں کی تبدیلی کو ہی کہانی کی تبدیلی سمجھتے ہیں۔ میلے ٹھیلوں کی طرح اداکار کھلے میدان میں پرفارم کرتے ہیں۔ شعلہ بیانی، جھوٹ اور مکروفریب کا مقابلہ ہوتا ہے۔ کچھ مزاحیہ اداکار لوگوں کو ہنساتے ہیں اور دادا کی پوتی جیسے کچھ کردار امر ہوجاتے ہیں۔ پھر تماشائی قطاروں میں کھڑے ہوکر نیلی پیلی جادوئی پرچیاں بکسوں میں ڈالتے ہیں۔
یہ جادوئی پرچیاں کبھی اصل تعداد سے کم اور کبھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔ ان پرچیوں کو جنات گنتے ہیں۔۔ زیادہ پرچیاں حاصل کرنیوالے اداکار کامیاب قرار دئے جاتے ہیں۔ پھر یہ کامیاب اداکار جلوس کی شکل میں شاہی محل روانہ کردئے جاتے ہیں۔ ہارنے والے شور مچاتے ہیں لیکن انکی کوئی نہیں سنتا، الٹا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جیتنے والوں میں سے ایک کو بادشاہ بنادیا جاتا ہے۔
اب ڈرامہ کھلے میدان کے بجائے رومی، یونانی اوپیرا کی طرح ایک تھیٹر میں شفٹ کردیا جاتا ہے، جہاں ہارنے اور جیتنے والے اداکار اکٹھے پرفارم کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر جھوث، شعلہ بیانی اور مکروفریب کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ڈرامے میں دھینگا مشتی کے ساتھ مزاحیہ ٹچ بھی ہوتا ہے۔ جب ملک میں غربت اور بھوک سے مرنیوالوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو ڈرامہ کچھ دیر کیلئے المیہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسا المیہ ڈرامہ کہ جو یونانی ہومر کے المیہ کو مات دے دے۔
پھر کہانی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ شاہی محافظ اپنے بینڈ باجوں کے ذریعے بادشاہ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ بادشاہ سیخ پا تو ہوتا ہے لیکن پھر اپنے جسم ناتواں کو دیکھ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ جن ہاتھوں نے اسے سنگھاسن پر بٹھایا ہے، وہ اتار بھی سکتے ہیں۔ لیکن شاہی محافظوں کی شرارتیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں۔ کبھی وہ بادشاہ کا جوتا چرالیتے ہیں اور کبھی لیٹرین سے اس کا لوٹا۔ محافظ بادشاہ کی بے بسی پر بھرپور قہقہے لگاتے ہیں۔ لیکن بے غیرت بادشاہ پھر بھی مطمئین رہتا ہے کہ چلو بے عزتی کی خیر ہے تاج تو سلامت ہے۔ حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ کہانی کے اس موڑ پر بادشاہ کی رخصتی قریب آجاتی ہے لیکن اکثر بادشاہ خوش فہم ہوتے ہیں اور خوماشدی درباریوں کی چکنی چپڑی باتوں میں أکر نوشتہ تقدیر نہیں پڑھ سکتے۔
کہانی کے آخر میں محافظ اس کا تاج بھی چرالیتے ہیں۔ اب بادشاہ شاہی محافظوں پر سیخ پا ہوتا ہے لیکن وہ بلند قہقہوں میں یونانی کہاوت دہراتے ہیں "بادشاہ وہ ہوتا ہے، جس کے سر پر تاج ہو لہذا تم اب بادشاہ نہیں ہو"۔ بادشاہ زور زور سے چیختا چلاتا ہے، اپنی شاہی مہریں دکھاکر کہتا ہے "میں بادشاہ ہوں"۔ لیکن شاہی محافظ اسے ٹانگوں اور بازوٶں سے گھسیٹتے ہوئے محل سے لیجاتے ہیں۔ بادشاہ کی چیخوں کے درمیان قہقہوں کا ایک شور بلند ہوتا ہے۔ معزول بادشاہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو قہقہے لگانے والوں میں اس کے اپنے درباری بھی شامل ہوتے ہیں۔
دوبارہ سٹیج سجادیا جاتا ہے، کہانی کو دہرانے کیلئے۔۔