Judges Tayunati Rules (2)
ججز تعیناتی رولز (2)
سول ایجنسیوں کی رپورٹس کے بعد نامزدگیوں پر غوروخوض کے لیے سیکشن 12کے تابع کمیشن کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ چیئرمین یعنی چیف جسٹس آف پاکستان اجلاس کی سربراہی کریں گے اور کمیشن کے تمام ممبران کو نامزدگیوں پر بحث و مباحثہ اور رائے دینے کے لئے مساوی مواقعے فراہم کریں گے۔ غورو خوض کے بعد اراکین ہاتھ کھڑے کرکے نامزد شخص کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینگے۔ نامزد شخص کے لئے کمیشن اراکین کی اکثریت کا ووٹ حاصل کرنا لازم ہوگا۔ اگر کوئی نامزد شخص کمیشن کے اکثریتی ووٹ حاصل نہ کرپائے تو ووٹنگ کا عمل دوبارہ کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں صرف دو نامزد افراد کے لئے ووٹنگ کا عمل دوہرا جائے گا جنہوں نے پہلے مرحلے میں زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔
ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کے بعد بھی کوئی نامزد فرد مطلوبہ اکثریتی ووٹ حاصل نہ کر پایا تو نامزدگی کے عمل کو روک دیا جائے گا اور پھر نئے سرے سے نامزدگیوں کو طلب کیا جائے گا۔ نامزدگی مرحلہ مکمل ہونے کے دو دن کے اندر سیکرٹری کمیشن اجلاس کی رپورٹ مرتب کرے گا۔ جس میں ووٹنگ کے نتائج اور فیصلہ جات کا اندراج کرنے کیساتھ ساتھ منتخب ہونے والے نامزد جج کی تعیناتی کی تفصیل مزید احکامات کے لئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ارسال کرے گا۔
رازداری کو یقینی بنانے کے لئے سیکشن 13 میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ججز تعیناتی اجلاس ان کیمرہ کیا جائے گا ماسوائے اگر کمیشن اوپن فورم میں اجلاس کرنے کی اجازت دے۔ اجلاس میں ہونے والی بحث و مباحثہ، غوروخوض کے علاوہ صرف فیصلہ جات کو کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے گا۔ اسی طرح کمیشن کے اراکین کو پابند کیا گیا ہے کہ کمیشن کے اجلاس میں ہونے والی بحث و مباحثہ یا رائے کو عوامی سطح پر منظر عام پر نہ لائیں جیسا کہ عمومی طور پر ہمارے سیاستدان ان کیمرہ اجلاسوں کی تفصیل بھی میڈیا کے سامنے یا پسِ پردہ مہیا کررہے ہوتے ہیں۔
اسی سیکشن میں یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کمیشن اجلاس کی بات چیت، رائے وغیرہ کو شائع کرنا مقصود ہوتو کمیشن اراکین کے اکثریتی اراکین کے فیصلہ کے بعد ایسا کیا جائے گا۔ عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کمیشن کے اکثریتی اراکین کمیشن کے کسی مخصوص معاملے یا اجلاس کو روکنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ سیکشن 14 میں چیئرمین کو کمیشن کی ذیلی کمیٹیاں بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ رولز کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اعلی عدلیہ میں خالی آسامیوں کی نامزدگی کے لئے چیف جسٹس صاحبان کی اجارہ داری کو ختم کردیا گیا ہے۔ کیونکہ 2010کے ججز تعیناتی رولز میں نامزدگی کا اختیار صرف چیف جسٹس صاحبان کے پاس محفوظ تھا۔ جبکہ 2024کے رولز کے مطابق کمیشن کے تمام اراکین کو ناصرف کسی فرد کو بطور جج بنانے کے لئے ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ کسی فرد کو نامزد کرنے کا حق بھی حاصل ہوچکا ہے۔
یاد رہے ماضی میں ہمیشہ چیف جسٹس صاحبان کی صوابدید پر ہی کسی فرد کو بطور جج نامزد کیا جاتا تھا اور متعدد مرتبہ یہی دیکھنے کو ملا کہ نامزد فرد کا تعلق کسی نہ کسی حوالہ سے چیف جسٹس سے قربت والوں سے نکلتا تھا۔ پھر چیف جسٹس کے ہم نوالہ افراد انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جج تعینات کروادیتے تھے۔ یعنی عدل و انصاف کی کرسیوں پر براجمان افراد اقربا پروری کی ترویج کا باعث بنتے رہے اور ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل چہارم کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے کوئی سمدھی کو سپریم کورٹ پہنچانے میں مددگار بنتا تو کوئی داماد صاحب کو عدلیہ کے ایوانوں میں داخل کرواجاتا۔
میری نظر میں رولز کے مطابق بنائے گئے نامزدگی فارم بھی میرٹ لسٹ تیار کرنے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہونگے۔ کمیشن کے کسی رکن کی جانب سے کسی فرد کو بطور جج نامزد کرنے اور نامزدگی فارم پر دستخظ کرنے سے پہلے کم از کم دس مرتبہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ جس شخص کو نامزد کرنے جارہا ہے کیا اسکے پلے بھی کچھ ہے یا نہیں؟ بطور قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ نامزدگی فارم پُر کرتے وقت ہی کسی شخص کی قابلیت سامنے آجائے گی۔ جیسا کہ بطور وکیل نامزدگی فارم اتنا جامع ہے کہ اسکے ہر کالم میں لکھی گئی تفصیل وکیل کی قابلیت و مہارت کو واضح کردے گی اور کمیشن اراکین کے لئے وکیل کی بطور جج حتمی سفارش کرنا اتنا مشکل نہ ہوگا۔
اسی طرح جوڈیشل آفیسر کا نامزدگی فارم بھی خود وضاحتی دستیاویز ہے، جسکی بدولت کسی جوڈیشل آفیسرکو بطور ہائیکورٹ جج تعیناتی میں نامزد آفیسر کی پروفیشنل کارکردگی جزو لازم قرار پائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئین و قانون کے ہر طالب علم کو ججز تعیناتی رولز 2024 اور خصوصا اس میں موجود نامزدگی فارم کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
امید یہی کی جاسکتی ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم اور اسکے بعد ججز تعیناتی رولز 2024کی بدولت اعلی عدلیہ میں پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل افراد ہی بطور جج تعینات ہوسکیں گے جسکی بدولت آئین و قانون کی سربلندی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔