Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Nuqta, Riwayat Aur Jadeediyat Ka Haseen Imtizaj

Nuqta, Riwayat Aur Jadeediyat Ka Haseen Imtizaj

نقطہ، روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج

ہر انسان کے دل میں یہ خواہش موجزن ہوتی ہے کہ وہ اپنے وجود کا اظہار کرے اور اپنے احساسات کو دوسروں تک پہنچائے۔ یہ خواہش انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ مگر اس خواہش کی تکمیل اور اس میں کامیابی حاصل کرنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ جو لوگ اس سفر میں کامیاب ہوتے ہیں، ان میں بھی بہت کم ایسے ہیں جو اپنے ذاتی تجربات کو اس انداز میں بیان کر سکیں کہ وہ ذاتی سے زیادہ اجتماعی محسوس ہوں۔

ڈیرہ اسماعیل خان، جو ہمیشہ سے ادب و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے، شاعری کے حوالے سے بھی اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کا شعری شعور سنجیدگی، جدت اور روایت کا امتزاج ہے۔ انہی نوجوان شعرا میں سید قیس رضا کا نام ایک روشن ستارے کی طرح نمایاں ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ "نقطہ" کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے، جو ان کے فن اور فکر کا عکاس ہے۔ قیس رضا غزل اور نظم دونوں میں مہارت رکھتے ہیں اور ان کے اشعار قاری کو بے ساختہ داد دینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

قیس رضا ایک ایسے شاعر ہیں جو روایت سے جڑے رہتے ہوئے جدید فکر کو اپنی شاعری میں سمونے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی لب و لہجے کی جھلک بھی ملتی ہے اور جدید شعری تقاضوں کا حسن بھی۔ ان کے اشعار میں لہجے کی پختگی، فکری گہرائی اور جذبات کی شدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ اپنی ذات اور وراثت کا ذکر کرتے ہوئے قیس رضا کہتے ہیں:

زہے نصیب کہ نسبت مجھے ملی ورنہ
کہاں پہ قیس، کہاں پر یہ خاندان سبز

قیس رضا کے اشعار میں کربلا کا استعارہ بارہا نظر آتا ہے، جو ان کی فکر کی گہرائی اور ان کے شعری آفاق کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے:

اکیلا چل پڑا تھامے مہار ناقۂ سبز
درونِ دشت مرا کوئی ہم خیال نہ تھا

ایک صحرا میں آ کر ہوئے کوئی دن خیمہ زن آسماں کے مکیں خاک پر
چاند سورج ہے جن کے نقوش قدم روشنی بانٹتے تھے یہی خاک پر

دیار عشق کو راہ سناں پہ چلتے ہوئے
جہاں پہ جسم نہ پہنچے وہاں پہ سر پہنچے

ان کے اشعار میں نہ صرف کلاسیکی شعری روایت کی پاسداری دکھائی دیتی ہے بلکہ زندگی کے پیچیدہ مسائل کا فکری حل بھی نظر آتا ہے:

روایت کی رسی کو تھامے ہوئے میرے کنبے کے افراد
کوئی مسئلہ ہو تو حافظ کے شعروں میں حل ڈھونڈتے ہیں

قیس رضا نہ صرف بڑی بحر میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ چھوٹی بحر میں بھی ان کا اندازِ بیان منفرد اور مؤثر ہے:

یہ جو دریا ہے آئینہ ہے مجھے
عکس پانی سے دیکھتا ہے مجھے

تو اسے یاد کرکے رو دے گا
ایک درویش نے کہا ہے مجھے

ایک آزاد کہہ رہا ہے مجھے
میں نے خود کو غلام کرنا ہے

سر سناں پر اٹھا دیا جائے
اب خدا نے کلام کرنا ہے

قیس رضا کی شاعری میں اپنے علاقے، زمین اور مقامی ثقافت سے گہری محبت جھلکتی ہے۔ ان کی نظمیں یوں محسوس ہوتی ہیں جیسے دریا کنارے بیٹھ کر یا کافر کوٹ کے ویران پہاڑوں کے درمیان لکھی گئی ہوں۔ ان کی ایک نظم "سمبندھ" ان کی مقامی وابستگی اور جذباتی تعلق کا خوبصورت اظہار ہے:

من مندر میں روشنی
چاروں اور سویرا

کافر کوٹ کے پہلو میں
ایک فقیر کا ڈیرا

اپنا چہرہ

قیس رضا کی شاعری ان کی ذاتی شناخت، فکری وسعت اور تخلیقی مہارت کی مظہر ہے۔ ان کا شعری سفر نہ صرف ڈیرہ اسماعیل خان بلکہ اردو ادب کے افق پر ایک روشن چراغ ہے۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قیس رضا نہ صرف روایت اور جدیدیت کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اردو شاعری کے مستقبل کے اہم نمائندوں میں سے ایک ہیں۔

Check Also

Afghanistan Mere Zehan Par Kyun Sawaar Hai

By Nusrat Javed