Uljhe Log
الجھے لوگ
ابتدا سے ہی اشرافیہ نے نا جانے کس سوچ کے تحت پاک سر زمین کی عوام کو کنفیوز کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ کچھ خاندانوں کے دل اغیار اور برے ہمسائے سے ملے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے شاید مجبوری میں پاکستان ہجرت کر تو لی مگر ان کے دل پرانی گلیوں میں دھڑکتے رہے۔ برا ہمسایہ اس راز سے بخوبی واقف ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً پیاری سر زمین پر شر پھیلانے کے لیے ان سے مدد لیتا رہتا ہے۔
اسی شریر سوچ کے تحت پیارے ملک کے لوگوں کو کبھی آپس میں لڑوایا جاتا ہے۔ کبھی مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہے اور کبھی دہشت گردی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان جیسے بہت سے شر پسندانہ عزائم، واضح ہیں اور ان کے سدباب کی کوشش میں پاک فوج ہر وقت تیار رہتی ہے۔ مگر کچھ عمل پوشیدہ ہیں۔ جو گھر کے غداروں سے مل کر بہت خاموشی سے کیے جارہے ہیں۔ ان مکروہ اعمال کی مثال پانی کے اس قطرے سے دی جا سکتی ہے۔ جو ایک چٹان پر ہر روز گرتا ہے اور اسے اندر سے کمزور کرتا ہے۔
ان میں سے ایک سب سے سنگین پوشیدہ بلکہ کہیں میسنا جرم عام عوام کو کنفیوز کرنا ہے۔ (معزرت کے ساتھ مجھے بحالت مجبوری انگریزی زبان کا لفظ استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اردو زبان کی وسعت قلبی اس بات پر ہرگز برا نہیں منائے گی۔)
آپ غور کرنا شروع کریں۔ ہم ہر بات پر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتا تب سے ہی یہ الجھنیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے ڈاکٹر، ہسپتال کی الجھن۔ فیک ویڈیوز اور خدائی فوجداروں نے عوام کے اندر اپنے بے انتہا علم کی بدولت اتنا خوف پیدا کر دیا ہے کہ ہم ہر ڈاکٹر اور ہسپتال کے متعلق شک کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں لوٹ تو نہیں لے گا۔ اس کی ڈگری جعلی تو نہیں۔ ہم سے زیادہ فیس تو چارج نہیں کر رہا۔
پھر بچے کی تربیت کا عمل سمجھیں ایک آگ کا دریا پار کرنا ہے۔ اندازہ کریں جوڑے کو کنفیوز کرنے کے لیے لوگ یہ بھی مشورے دینے آجاتے ہیں کہ دودھ کون سا پلانا ہے؟ اگلے پیدائشی عمل میں کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟ کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہونی چاہیے؟ اس مرحلے کے بعد تعلیم کا عمل وہ بھی الجھنوں سے بھرپور۔ مدرسہ یا ماڈرن تعلیم۔ کون سا اسکول ہونا چاہیے؟
آپ یقین کریں گے میں نے والدین کو اسکولز میں آکر پلے گروپ کے کورس کا ایسے تجزیہ کرتے دیکھا ہے۔ جیسے انھوں نے اس دنیا کو ایک 100+آئی کیو لیول کا بچہ دے دیا ہے اور اس بچے نے دنیا کی نا بھی سہی، پاکستان کی تاریخ ضرور بدل دینی ہے۔ وجہ لوگوں کا کنفیوز کرنا ہے۔ موٹیویشنل اسپیکرز ہر وقت عام عوام کو یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ بچوں کو کس طرح کی تعلیم دلوائی جائے۔ ان باتوں نے عام عوام کے ذہن کو کنفیوز کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر کوئی اپنے بچے کو ذہنی استطاعت نا ہونے کے باوجود آسمان کی بلندیوں پر دیکھنے کا خواہش مند ہے۔
تعلیم کے بعد روزگار کے وہ سلسلے شروع ہوتے ہیں۔ جن میں لاڈلے تعلیم یافتہ پوزیشن ہو لڈرز بچوں میں سے بہت سو کی ٹھوکریں کھا کر گول بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
محنت کم عہدہ اونچا اور تنخواہ زیادہ، سہولیات کی بھر مار۔۔ یہ ہر فارغ التعلیم طالب علم کا خواب ہے۔ جب یہ خواب پورا نہیں ہوتا تو حسد سے لے کر حسرت تک کا ہر منفی جذبہ دل میں پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر اچھی جاب مل بھی جائے تو تربیت کے ساتھ دین کا تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ حلال اور حرام کی جنگ میں انسان پس کر رہ جاتا ہے۔
اپنے خواص اور اشرافیہ کو دیکھ لیں۔ نا یہ مکمل ظالم جابر حکمران بن سکتے ہیں اور نا ہی خلفاء راشدین۔ کبھی یہ اسلامی ٹچ دیتے ہیں اور کبھی عوام کو ماڈرن کرنے کی کوشش میں چھچھوری حرکتیں کرتے ہیں۔
ہمارے حکمران پاکستان کے حکمران بعد میں، دوسرے ملکوں کے سربراہان کے قریبی رشتے دار پہلے بنتے ہیں۔ یہ اتنے کنفیوز ہوتے ہیں کہ ان کی حالت دیکھ کر غریب رشتےدار کا امیر رشتےدار سے ملنے کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
ہم جب تعلیم کے پیچھے پڑتے ہیں۔ تو یہ بھول جاتے ہیں کہ چند سال بعد یہ سارے اسکالر شپ ہولڈرز ہم سے نوکریاں بھی مانگیں گے اور نا ملنے کی صورت میں ہمارے ہی خلاف دھرنے دیں گے۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک کنفیوز نسل پیدا کرتا ہے۔ ہمارا اسکول ٹائم انگریزی سیکھنے، حساب کے مسئلے حل کرنے میں گزرتا ہے۔ والدین تو ایک طرف اساتذہ کو بھی نہیں معلوم کہ وہ "کیا" اور "کیوں" پڑھا رہے ہیں۔
ہم آج تک عوام کو ٹریفک کے اصول، گفتگو کی تہزیب اور عام زندگی گزارنے کے اصول نا سمجھا سکے۔ کیوں کہ تعلیم یافتہ وہی ہے، جس کے پاس ڈگری ہے۔ میڈ لز اور سرٹیفکیٹ ہیں۔
ہم ایک طرف ٹک ٹاک پر بے ہودہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اپنی گھر کی خواتین سے لے کر دین تک کا مذاق بنا لیتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری ماں، بہن کو کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ لے تو آنکھ نکالنے ہر تل جاتے ہیں۔
ہمارے عالم دین بے ثباتی دنیا پر درس دیتے ہوئے حرص و ہوس سے دور سادہ طرز زندگی پر زور دیتے ہیں۔
دوسری طرف ان کے قیمتی گھر، گاڑیاں، پروٹوکول دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ خود کو گناہ گار سمجھیں یا ان کو اللہ ربّ العزت کا پسندیدہ بندہ جانیں۔ جن پر کام نا کرنے کے باوجود بھی فضل و کرم کی بارش برستی ہے۔
ایک طرف ہم ہر وقت جمہوریت کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ کبھی ووٹ کو عزت دلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی جمہوریت کو بہترین انتقام کہتے ہیں۔
دوسری طرف سب سے زیادہ آمریت اپنی ہی سیاسی جماعتوں میں پروان چڑھاتے ہیں۔ اپنے علاؤہ کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ خود پر تنقید کرنے والے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہمارے لیڈرز ہر وقت کنفیوز رہتے ہیں کہ انھوں نے جمہوریت پسند بننا ہے یا آمریت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ غرض عوام سے لے کر خواص تک کوئی بھی فوکسڈ نہیں ہے۔ ہمیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیسا بننا ہے؟ اور ملک الموت سرہانے کھڑا ہو کر مہلت ختم ہونے کا حکم سنا رہا ہوگا۔
مجھے معلوم ہےکہ میرے قاری اس وقت مجھ پر بھی کنفیوزڈ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ تو عرض ہے کہ میں بھی تو آپ جیسی ہی ہوں۔ میرا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہے۔ میں کون سا آسمان سے اتری خاص مخلوق ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب الجھنوں کے سمندر میں ڈوبتے جارہے ہیں۔ کیوں کہ تیرنا نہیں آتا اور جنھیں تیرنا آتا ہے، انھیں کنارے کا علم نہیں اور ظالمانہ حقیقت یہ ہے کہ نا یہ کنارہ ملے گا اور ناہی کوئی لیڈر اس سمندر سے نکالے گا۔ کیوں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی تیر اور ڈوب رہے ہیں۔