Baap Ki Shafqat
باپ کی شفقت
کچھ دن سے ہمارے دفتر کا ایک چوکیدار تبدیل ہوگیا ہے۔ مجھے وہ کم از کم پینسٹھ یا ستر سال کا لگا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت میں نے پاس جاکر اسکا حال احوال دریافت کیا۔ بچوں وغیرہ کا پوچھنے کے بعد اس عمر میں ملازمت کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا "میرا بیٹا مجھے کام نہیں کرنے دیتا تھا اور میں گھر ہی پر ہوتا تھا لیکن اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ کام پر نہیں جاسکتا اور زیادہ سخت کام بھی نہیں کرپارہا ہے"۔
میں نے دوسرے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگا کہ "وہ کچھ زیادہ نہیں کماتا ہے"۔
میں نے عمر کا پوچھا تو شرما کے بولا "ساٹھ پینسٹھ کا ہوں گا" پھر کچھ توقف کے بعد بولا "صاحب جی! امیر لوگ بوڑھے نہیں ہوتے ہیں۔ ایک بندہ فلاں جگہ پر افسر ہے اور بیس سال سے ویسا ہی ہے"۔
میرے ذہن میں آیا کہ شاید یہ فوج سے ریٹائرڈ ہو کیونکہ ایک دفعہ میں نے ایک تحریر لکھی تھی کہ ہوٹل کے بیروں، پٹرول پمپ پر کام کرنے والوں یا سکول کے چوکیداروں کو کچھ نہ کچھ دے دیا کریں تو ایک صاحب نے فرمایا کہ "چوکیدار دراصل ریٹائرڈ فوجی ہوتے ہیں جنہوں نے بچت سکیموں میں پیسا لگایا ہوتا ہے اور ٹھیک ٹھاک کماتے ہیں"۔ حالانکہ یقین کیجیے میں نے نچلے گریڈ والے فوجیوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد رکشہ ہی چلاتے دیکھا ہے یا پرچون کی دکان خیر یہ بات سیاسی نہ ہوجائے اس لیے اس بات کو لپیٹتے ہیں۔ میرے استسفار پر اس نے بتایا کہ وہ شروع سے محنت مزدوری کرتا تھا لیکن اب سخت کام نہیں کرسکتا ہے۔
یہ ایجنسی کے ذریعے لگا ہے اور بیس پچیس ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی ہے اور ڈیوٹی بھی بارہ گھنٹے کی جس میں ہفتہ تو چھوڑیے پورے سال میں کوئی چھٹی نہیں ہے۔ یہ بندہ پہلے چوکیدار کی طرح صرف گیٹ نہیں کھولتا ہے بلکہ پارکنگ میں لگی موٹر سائیکلوں کو بھی ڈبل سٹینڈ پر ترتیب سے کھڑا کرتا ہے۔ پھر میں نے زبردستی کچھ اس کی مدد کر دی اور کہا کہ جب تک ہوسکا کچھ نہ کچھ مدد کرتا رہوں گا۔ لیکن مجھے پتا ہے ہماری کمپنی کے مالک بھی ایک خدا ترس شخص ہیں اور وہ بھی اس کی مدد کرتے ہیں۔
رات کو میں نے دفتر سے نکلتے ہوئے اس سے اس کی رہائش کا پوچھا تو اس نے جس مقام کا بتایا وہ ہمارے دفتر سے کم و بیش بیس بائیس کلومیٹر ہے اور یہ شخص اس عمر میں سائیکل پر صبح سویرے نکلتا ہے اور پھر بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی سرانجام دے کر رات کو اس ٹھٹھرتی سردی میں گھر واپس پہنچتا ہے۔ ویسے دوسرا چوکیدار بھی رات کی ڈیوٹی دیتا ہے اور صبح میں رکشہ بھی چلاتا ہے۔
میرا سوال اب ان ہڈحراموں سے ہے جو گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہیں اور کام نہ ملنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ ظالمو! اس شخص اور اس جیسے بےشمار اشخاص کو دیکھ لو جو اس بڑھاپے میں سخت سردی گرمی میں اپنے بچوں کے لیے محنت کررہے ہیں اور تم لوگ باہر جاکر لیٹرینیں صاف کرنے کی خواہش میں سمندروں میں ڈوب رہے ہو لیکن محنت کرنے سے گھبرارہے ہو۔۔ ایک دفعہ دل لگا کر محنت کرو تو سہی پھر دیکھنا اللہ کیسے تمہارا ہاتھ تھامتا ہے لیکن جتنا بھی ہوسکے کسی کے کام آنے کی کوشش ضرور کرنا خواہ وہ دس بیس روپے ہی کیوں نہ ہوں یا اخلاقی مدد ہی کیوں نہ ہو۔
(معذرت کے ساتھ میں ایک عام سا بندہ ہوں اور مہینے کے آخر میں جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوتا ہوں اس لیے برائے مہربانی آن لائن والے مستحقین مجھ سے مدد مانگ کر شرمندہ مت کیا کریں کیونکہ میرے پاس تصدیق کا وقت نہیں ہوتا ہے۔ میرے آس پاس اتنے لوگ ہیں کہ گنجائش ہی نہیں بچتی ہے۔۔ ایک دفعہ پھر معذرت)۔

