Dunya Ki Tabahi Ki Warning
دُنیا کی تباہی کی وارننگ
دُنیا اس وقت قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلاؤں نے انسانوں کو اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔ دُنیا تیزی سے تباہی کی طرف جارہی ہے۔ حال ہی میں کئی ممالک میں برفانی طوفان، تبت میں شدید زلزلہ عمارتیں گر گئیں، ہلاکتیں 126 ہوچکی۔ پاکستان کے شہر آلودہ ترین فہرست میں پہنچ چکے، کئی شہروں میں سموگ کا راج۔ دیہی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کے باعث پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، متعدد گاؤں پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے۔
کورونا کے بعد چین میں کورونا جیسی علامات والے نئے وائرس نے یلغار کر لی، بمطابق رپورٹس نئے وائرس سے متاثرہ لوگوں میں نزلہ اور کورونا جیسی علامات کی شکایات پائی گئی ہیں۔ ایچ ایم پی وی سمیت سانس کی بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اس وقت چین کے اسپتالوں میں پھیلتے ہوئے چار بڑے وائرل انفیکنشز میں سے ایک ہے۔ پینومو وائرس کا مطالعہ کرنے والے برطانیہ کی واروک یونیورسٹی کے وائرولوجی کے پروفیسر اینڈریو ایسٹن نے ایک ای میل میں "لائیو سائنس" کو بتایا کہ "ایچ ایم پی وی کو صدی کے آغاز سے ہی دُنیا بھر میں خطرے میں پڑنے والی آبادی کیلئے ایک اہم مسئلہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
ہیومن میٹا پینو وائرس ایک سانس کا وائرس ہے، جو بنیادی طور پر بچوں، بزرگوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اکثر عام زکام یا فلو کی علامات ظاہر کرتا ہے، جیسے بخار، کھانسی اور ناک بند ہونا، اس سے صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ایسٹون نے کہا، "HMPV بالخصوص چھوٹے بچوں کے لئے سنگین تشویش کا باعث ہے"۔
یہ RSV کے ساتھ ساتھ موسمی انفلوئنزا یا "فلو" کا بھی سبب بنتا ہے۔ تاحال اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے اور امریکا میں وائرس سے بچاؤ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے علاج کیلئے کوئی مخصوص طریقہ علاج دستیاب نہیں ہے تاہم HMPV کا علاج موجود ہے، یعنی اس کی علامات کو کم کیا جاسکتا ہے اور مریض کو مستحکم رکھا جاسکتا ہے۔
انسانوں کی ساری تدبیروں کے باوجود امن، چین، سکون غارت ہوتا جارہا ہے۔ انسانوں کی اپنی ہی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی انسانوں کے لئے تباہی کا سامان کرنے لگی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، دُنیا بھر سے 184 ممالک کے 16 ہزار سائنس دانوں نے انسانوں کے طرز زندگی کے سبب زمین کو لاحق خطرات سے متعلق وارننگ میں کہا تھا کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انسان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ 1992ء میں 1700 سائنسدانوں نے پہلی بار متفقہ طور پر دنیا بھر کے نام ایک انتباہی خط جاری کیا تھا جس میں وارننگ جاری کی گئی تھی کہ انسان قدرتی ماحول سے تصادم کی راہ پر چل رہا ہے، اگر ہم نے ماحولیات کو نقصانات پہنچانے والے عوامل کو فوری طور پر نہیں روکا تو ہمارا مستقبل خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس نے ہمیں آنے والے حالات و واقعات، ان کے اسباب، ان کے تدارک کی مکمل رہنمائی مہیا کی ہے۔ زلزلے، بارشیں نہ ہونا، قحط، معاشی مسائل اور سب سے اہم یہ کہ دُنیاوی سب وسائل کے ہوتے ہوئے بھی اضطراب، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی، موسیماتی تبدیلیاں، بارشوں کا وقت پر نہ ہونا یہ آفات نازل کرنے قدرت کی طرف سے ایک وارننگ ہوا کرتی ہے کہ بڑے عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر وعمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ بالفاظِ دیگر دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا کہ بالکل آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔
آفات و بلیات، طوفان و سیلاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کاروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کاروائی ہے، مگر ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتّہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔
اللہ پاک نے قرآن مجید میں سورہ السجدہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ: "اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دُنیا میں عذاب کا مزا چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ باز آ جائیں اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جسے اس کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جائے پھر وہ ان سے منہ موڑے، ہمیں تو گنہگاروں سے بدلہ لینا ہے۔ درحقیقت اس قسم کی تکالیف اور حادثات میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہونے کی بجائے اس کی تابعداری کے راستے پر کاربند رہیں۔
اسلام کی رہنمائی میں واضح اصول بتا دئیے گئے ہیں، کہ اگر ہم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا ہوگا۔ چودہ سو سال قبل جن خطرات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا وہ آج خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں۔ آسائشوں میں اضافے پر مسلسل کام ہو رہا ہے جس کی وجہ سے قدرتی ماحول کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کہاں تک ہماری نافرمانیوں اور بے جا اپنے کاموں میں دخل اندازی کو برداشت کرتی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہم نے آسائشوں اور سہل زندگی گزارنے کیلئے راستہ تباہی کا چن رکھا ہے۔
ہم تباہی سے بچنے کیلئے تباہی کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا اندازہ نہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہم باقاعدہ تباہ ہو رہے ہونگے۔ پلٹنا پڑے گا جو کہ یقیناََ ناممکن سی بات ہے ورنہ سفر تباہی کی جانب تیزی سے بڑھتا ہی جائے گا۔ خاکم بدہن مگر دکھائی ایسا ہی دے رہا ہے کہ اب بس تباہی ہی ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کا اپنا بویا ہوا بیج کاٹنے کا وقت بھی قریب سے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ یہ زلزلے، اندھیاں، طوفان دنیا کی تباہی کی وارننگ ہیں۔