Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Terhawan Sitara

Terhawan Sitara

تیرہواں ستارہ

شبیر احمد بھٹی سے میری پہلی ملاقات ہمارے ایک مشترکہ دوست اشتیاق احمد کے توسط سے ہوئی تھی جو اپنی نئی کتاب کا تحفہ لے کر میرے دفتر تشریف لائے تھے۔ تعارف ہونے پر پتہ چلا آپ ایک عمدہ شاعر اور نثر نگار ہیں۔ اس وقت تو آپ کی شاعری کے اوپر کچھ بات چیت ہوئی تھی مگر کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی مذکورہ کتاب مجھ تک پہنچی تو سوچا اس کو پڑھ کر دیکھتے ہیں کیا کہتی ہے۔

بنیادی طور پر یہ کتاب افسانے اور کہانیوں پر مشتمل ہے جن کو افسانوں سے زیادہ کہانی کہنا ہی بہتر ہے کیونکہ ان میں افسانوی انداز کی کمی ہے۔ کہانیاں اہنے اردگرد کے ماحول سے اٹھائی گئی ہیں جو کہ بہت عام ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خاص بھی ہیں۔ عام اس لیے کہ ہر کہانی کے کردار آپ کو اپنے اردگرد گھومتے ہوئے نظر آئیں گے اور خاص اس لیے کہ ان کرداروں پر جتنی توجہ بھٹی صاحب نے کی ہے وہ ہم میں سے کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔

کتاب کی زبان کافی رواں ہے جس وجہ سے پڑھنے میں دشواری نہیں پیش آتی۔ مگر کچھ کمیاں جو مجھے اس کتاب میں نظر آئی وہ قارئین کے پیش نظر ہے۔

آپ نے ہر کہانی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی پوری پوری کوشش کی ہے جس کی وجہ سے کہانی میں یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر کہانی کا اختتام قاری پر چھوڑ دیا جائے تو کہانی کے بہت سے زاویے بن جائیں گے جو کہ کسی اچھی کہانی کے لیے ضروری ہیں۔

آپ نے بہت عام سے کرداروں سے بہت شستہ اردو بلوائی ہے جو اُن کے کرداروں سے میل نہیں کھاتی۔ کئی جگہیں ایسی نظر آتی ہیں جہاں اپنی مقامی بولی کے علاوہ اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتہ وہاں بھی شستہ اردو مکالمہ کا مزہ خراب کر دیتی ہے۔

بہت سے کہانیوں میں سسپنس کا عنصر شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر مصنف کے انداز بیان سے واقفیت کی بنا پر ان کا اختتام پہلے ہی پتہ چل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ عنصر بھی معدوم ہو جاتا ہے۔

کافی الفاظ ایسے ہیں جن کو موقع محل کی مناسبت سے استعمال نہیں کیا گیا۔

بہت سی کہانیاں نصیحت کا انداز لیے ہوئے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے یہ کتاب چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ دو چار علامتی کہانیاں بھی اس کتاب کا حصہ ہیں جن میں جانور ہمارے معاشرے کے مسائل کی نشاندہی اور سد باب کا طریقہ بتاتے ہیں (میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کہانیاں "کلیلہ و دمنہ" سے منسوب کرنے پر مجبور ہوگیا)۔

Check Also

Mehboob Se Ghair Mehboob

By Saadia Bashir