Mojooda Nasal
موجودہ نسل
یہ خیال شاید ہر ذمہ دار شہری کے دل میں آتا ہے کہ ہماری نسل کو ہم کیا دے کے جارہے ہیں اور کل یہ ہماری نسل کس مقام پر کھڑی ہوگی۔ تہذیب تمدن کے باہمی اصولوں سے روشناسی، ذی قدر اور اعلی ظرفی کے حسن سے لبریز اصول۔
انسانیت کے ریت و رواج سے کتنی واقفیت کی حامل ہماری نسلیں، فیملی محلہ خاندان ملک ریاست کی کل جن کے ہاتھوں میں بھاگ دوڑ ہوگی آیا وہ شعوری طور پر کس مقام پر نظر آرہی ہیں؟
تعلیم سے مکمل آراستہ ہماری اگلی نسل کے اندر تعلیم کے واقعی اثرات ہیں یا صرف کاغذی مارکس ہیں۔ ہم اپنی نسلوں میں تفریق، نفرت، بغض، حسد، کینہ، کے خلاف کتنی نصیحت واعظ و فکر سمجھا کے جارہے ہیں۔ کل جب ہم مرحوم کہلائیں گے تو، ہماری مرحومیت کی بنا پر ہماری نسل کتنی مدد کرے گی۔
دلخراش واقعات سننے دیکھنے کو جب ملتے ہیں، تو کبھی کبھار دل ناتواں پر عجیب سکت و کفیت آشکار ہوتی ہے۔ موجودہ نسل کے کارناموں میں افسوس کن کارناموں کی بھی بہت بڑی لسٹ ہے۔ آج کے نوجوان کی تربیت کیلئے مہنگے سکول کا ایڈمیشن کافی نہیں ہے۔ بلکہ اسکو زندگی کے طورو اطوار سکھانے کیلئے ہمیں پریکٹیکل بہت سی چیزوں سے روشناسی لازم کروانی پڑے گی۔
ٹیچر فیملی دوست احباب رشتے داروں اور زندگی کے دیگر معاملات احسن طریقے سے نبھانے کیلئے صرف کڑی نگرانی کرکے سٹڈی روم میں الجھائے رکھنا کافی نہیں۔ بہت زیادہ پیار کرکے ممی ڈیڈی بنانے کے بجائے انکے بہترین مستقبل کی راہ ہموار کرانا بہتر ہے۔
ہم نے ہمیشہ ساتھ نہیں رہنا اور ہم ایک محدود وسائل کی بنا پر اعلی اور بہتر طرز زندگی سکھا جائیں۔ تاکہ کل کلاں ہمارے نام سے منسوب نسل ایک بہترین کردار کہلوائیں۔
ہم ایک ٹرننگ پوائنٹ پر اپنی نسل کو چھوڑ کر جارہے ہیں۔ اس کا سامنا دنیاکی بہترین ٹیکنالوجی سے ہے۔ ہماری نسل کا سامنا دنیا کی بہترین معاشی اور جوہری طاقتوں کے ساتھ ہے۔ یہ فرنگی کے بچھائے گئے جالوں سے کتنی ایک واقفیت رکھتے ہونگے۔ ہماری نسل کو کل پوری دنیا سے الگ اور محرومی کا سامنا نہ ہو۔ ہمارے نسل میں کیا ٹیلنڈ ہے۔ جس کو کبھی محسوس کیئے بغیر دھونس دھمکی سے فیصلے پر کاربند کرتے ہیں۔
امریکہ برطانیہ سمیت مختلف یورپین ممالک نے سٹیٹ کے بچوں کو بہترین نشوونما کے بعد زبردست قسم کی تربیت دینے پر زور لگاتے ہیں۔ جب کہ ہم اپنی نسل کو پوری ایک صدی پیچھے لے کر چل رہے ہیں۔
دینی کلاسزز سے ہم اپنی اور بچوں کی آخرت اور ابدی حیات کو تو بہتر بنا لیتے ہیں نورالدین زنگی محمود غزنوی اور دیگر بہترین کرداروں کی صرف مثالیں سنانا کافی نہیں۔ انکی مکمل تقلید کی بنا پر امت محمدیہ ﷺ کی بقاء اور دنیا کی ہر فیلڈ میں کامیابی کیلئے ہمارا کردار زیرو ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کو چن چن کر شہید کیا گیا تھا۔ ہر طرف ظلم و بربریت تھی۔ اس وقت کے ایک مشہور عالم دین نے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ طے یہ ہوا کہ ہم اپنی نسل کو پڑھائیں گے۔ سوال ہوا حضرت انگریز نے تباہی مچادی ہے ہماری نسل ختم کردی ہے آپ اسکا جواب مدرسہ بنا کرکیسے دے سکتے ہیں۔ تو اس عالم دین نے سہنری حروف بولے مدارس، کلاسز، تعلیم، ہنر، فن سے نسلیں تیار ہوتی ہیں اور انشاءاللہ یہ بہت بڑی قوم بنے گی۔
اور یہی ہوا آج الحمداللہ دنیا میں کثیر تعداد میں مسلمان موجود ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں مگر آگاہی سے بالکل بے خبر ہوچکے ہیں۔ جس طرح کا دور آنا ہے اس طرز کی ہم نسل نہیں چھوڑ کے جارہے۔
ہماری ترجیحات میں دنیا کی نمبر ون معیشت بننا شامل نہیں۔ ہماری ترجیحات میں سپر طاقت بننا شامل نہیں۔ ہماری ترجیحات میں سستی روٹی سستی اشیائے خوردونوش لینا ہے اور پھر سو کر صبح جلدی اٹھتے ہی کھیتوں میں کام کرنا ہے۔