اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ٹرمپ کے خطرناک عزائم
1970ء کی دہائی میں جب میں جوان ہورہا تھا تو سوشلزم کے بہت چرچے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ ایسا نظام ہوگا جہاں امیر وغریب کا فرق مٹ جائے گا۔ دنیا بھر کے انسان جب مساوی سطح تک پہنچ جائیں گے تو بالآخر قوم پرستی پر مبنی ممالک کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ مسادی دنیا گویا ایک ہی ملک بن جائے گی جہاں مقامی آبادیاں اپنے تئیں چھوٹے چھوٹے گروہوں تک محدود ہوئی روزمرہّ زندگی کے بارے میں فیصلے کیا کریں گی۔ اس دور کو کمیونزم کہا جائے گا۔
"قوم پرستی" پر مبنی ریاستی نظام کے مخالف ہوتے ہوئے بھی روس اور چین مگر 1962ء میں "سوشلسٹ" ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دشمن ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں جوان ہوا تو مائوزے تنگ کے چین نے سوویت یونین پر کارل مارکس کے بتائے فلسفے سے انحراف کا الزام عائد کیا۔ اس کے بعد روس اور چین دو متحارب فرقوں کی طرح "سوشلزم" کی تشریح کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اس فلسفے سے روگردانی کے مرتکب ٹھہراتے رہے۔
1970ء کی دہائی میں ہی خود کو سوشلزم کایک وتنہا محافظ کہلاتا عوامی جمہوریہ چین سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامت یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے قریب تر آنا شروع ہوگیا۔ آغاز ان کی دوستی کا ہنری کسنجر کے اس دورہ چین سے ہوا جو اس نے خفیہ طورپر بذریعہ پاکستان کیا تھا۔ بعدازاں مائوزے تنگ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے بعد ڈنگ سیائوپنگ آئے۔ انہوں نے امریکہ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کے وسیع تر مواقع فراہم کئے۔ ہزار ہا چینی طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے امریکہ بھیجا۔
نوبت 2025ء کے برس بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چین اب امریکہ کی دنیا کی واحد سپرطاقت ہونے والی شہرت کو اپنی خوش حالی، بے پناہ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اور دنیا بھر کو روزمرہّ استعمال کے لئے درکار اشیاء کو اپنے ملک میں تیار کرکے بھجوانے کی قوت کی وجہ سے للکار رہا ہے۔ عالمی تجارت میں تقریباََ اجارہ دار کا رتبہ اختیار کرنے کے بعد اب وہ دفاع اور کمپیوٹر کے میدان میں بھی امریکہ کو پچھاڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ چینی قوم پرستی کے جذبے کے بغیر وہ یہ مقام حاصل ہی نہیں کرسکتا تھا۔ چین کو دورِ حاضر میں قابل رشک مقام لہٰذا سوشلزم کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم پرستی کے جذبے کی وجہ سے میسر ہوا ہے۔
چین نے مگر جو بھی حاصل کیا وہ دیوار چین کے اس پار اپنی سرحدوں تک محدود رہتے ہوئے ہی حاصل کیا ہے۔ اس نے برطانیہ اور فرانس جیسے سامراجی ممالک کی طرح افریقہ اور ایشیاء کے بے تحاشہ حصوں پر فوجی قبضے کے بعد وہاں کے وسائل کا استحصال کرتے ہوئے خود کو عالمی قوت نہیں بنایا۔ فرانس ا ور برطانیہ جیسے تاریخی اعتبار سے سامراجی ممالک اب "آنے والی تھاں" پر واپس آچکے ہیں۔ امریکہ نام کا مگر ایک بہت بڑا اور دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ملک ہے۔ گزشتہ برس کے نومبر میں وہاں صدارتی انتخاب ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر 20جنوری 2025ء کو چار سالہ عہدِ صدارت کے لئے حلف اٹھائیں گے۔ موصوف کے حلف اٹھانے سے قبل ہی مگر ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے "سامراجی" زبان اور ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئے ہیں۔
نومبر کا انتخاب ہوگیا تو دسمبر کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے قریب ترین ہمسائے کینیڈا سے وہاں کا وزیر اعظم ٹروڈو ٹرمپ کو مبارک باد دینے اس کے فلوریڈا والے گھر آیا۔ کھانا ہوگیا تو اس کے بعد ٹرمپ نے اپنے ہی تشکیل کردہ سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم پر پیغامات کی بھرمار کردی۔ ٹروڈو کو "وزیر اعظم" پکارنے کی بجائے "(ایک) عظیم سٹیٹ(یعنی صوبے) کا گورنر" کہا جس سے مل کر اسے "خوشی" ہوئی۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ ایک خودمختار ملک کے وزیر اعظم کو "گورنر" پکارنے کی وجہ سے کینیڈا کے پریشان افراد کے ذہنوں میں جو سوالات اٹھے انہیں رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے اصرار کیا کہ کینیڈا کو اپنی خودمختار پہچان بھول کو امریکہ کی 51ویں ریاست (صوبہ) بن جانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے انہیں امریکہ میں اپنی برآمدات پر ٹیکس سے نجات مل جائے گی۔ ملکی دفاع پر بھی کوئی رقم استعمال نہ کرنا پڑے گی اور یوں کینیڈا انتہائی مالدار اور خوشحال (صوبہ) بن جائے گا۔
ٹروڈو کو ٹرمپ کے "مہربان" پیغامات کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑگیا۔ اس کی مخالفت اور عدم مقبولیت کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔ ٹرمپ کے پیغامات نے مگر محاورے والے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا۔ کینیڈا امریکہ کا قریب ترین ہمسایہ ہے۔ گرین لینڈ نام کا بھی ایک ملک ہے۔ یہ امریکہ کا سمندر پار کرنے کے بعد یورپ میں ڈنمارک کے قریب واقعہ ایک جزیرہ ہے جو ڈنمارک کی "نگرانی" میں چلتا ہے۔ وسیع وعریض رقبے کے اس جزیرے میں سنا ہے Earth Rare(نایاب مٹی) نامی معدنیات کے بے شمار ذخائر ہیں۔ مٹی کی یہ قسم موبائل فونز، کمپیوٹر اور بغیر پٹرول کی چلائی کاروں کے لئے درکار بیٹری کی بنیادی ضرورت ہے۔ ٹرمپ لگی لپٹی بغیر اس خواہش کا اظہار کررہا ہے کہ گرین لینڈ بھی کینیڈا کی طرح امریکہ کا حصہ بن جائے۔
باقاعدہ اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی نو منتخب صدر واضح طورپر دو "خودمختار ممالک" کو ہڑپ کرنے کا ارادہ بنائے ہوئے ہے۔ ٹرمپ کا ان دنوں قریب ترین ہوا دوست -ایلان مسک- جو کبھی ٹویٹر اور اب Xکہلاتے پلیٹ فارم کا مالک ہے اپنے تئیں مسلسل پیغامات دیتے ہوئے موجودہ وزیراعظم برطانیہ کا تختہ الٹنا چاہ رہا ہے۔ جرمنی میں اگلے مہینے جو انتخاب ہونے ہیں ایلان مسک اس میں انتہائی نسل پرست اور تارکین وطن کی جماعت اے ایف ڈی کو برسراقتدار دیکھنا چاہ رہا ہے۔
برطانیہ اور جرمنی کے عوام حیران ہیں کہ نیٹو کے اہم ممالک ہوتے ہوئے بھی وہ نو منتخب صدر کے انتہائی قریبی دوست کے عتاب کا نشانہ کیوں بنے ہوئے ہیں۔ "قوم پرستی" ختم کرنے کا جو خواب کبھی کمیونسٹ دیکھا کرتے ہیں نجانے کیوں اب دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامتیں یعنی ایلان مسک اور طاقتور ترین عہدے دار (امریکی صدر) دیکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے خواب کیا گل کھلائیں گے؟ اس کا جواب سوچتے ہوئے دل گھبراجاتا ہے۔