Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Claim Conference Aur Impact Ke Arakeen Se Mulaqat

Claim Conference Aur Impact Ke Arakeen Se Mulaqat

کلیم کانفرنس اور امپیکٹ کے اراکین سے ملاقات

اسرائیل میں ہمارے میزبانوں، یعنی شراکہ کے دوستوں نے کئی تنظیموں کے نمائندوں سے خصوصی ملاقاتیں کروائیں۔ ان سے ہماری معلومات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ ذہین یہودی کیسے اپنے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔

ایسی ایک ملاقات کلیم کانفرنس کے نمائندوں سے تھی۔ میں نے پہلے کبھی اس تنظیم کا نام نہیں سنا تھا۔ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد ہولوکاسٹ سے متاثر یہودیوں نے اپنے نقصانات کے ازالے کے لیے جرمنی کے خلاف مقدمات کیے تھے۔ یہ تنظیم 1951 میں قائم ہوئی اور تمام متاثرین کی نمائندہ بنی۔ جرمنی 1952 سے اب تک اس تنظیم کو 90 ارب ڈالر ادا کرچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ کلیم کانفرنس اس رقم سے ہولوکاسٹ متاثرین کے فلاحی منصوبے چلاتی ہے اور براہ راست رقوم بھی دیتی ہے۔ بعض متاثرین کو یکمشت بڑی ادائیگیاں کی گئی ہیں اور بہت سوں کو باقاعدگی سے پنشن ملتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت بھی دنیا میں ڈھائی لاکھ ہولوکاسٹ سروائیورز زندہ ہیں۔

تل ابیب میں ایک لیکچر پروفیسر گڈیئون گریف کا سنا جو فائنل سولوشن پر تھا۔ کم از کم میں اس بارے میں کافی کچھ پڑھ چکا تھا لیکن پروفیسر گریف سے گفتگو بہت اہم تھی۔ وہ ممتاز تاریخ داں ہیں جو ہولوکاسٹ، خاص طور پر آش وٹز کیمپ سے متعلق تحقیق میں بڑا نام ہیں۔

فائنل سولوشن تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے۔ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے شرمناک مہم چلائی تھی کہ تمام یہودیوں کو جرمنی سے نکل جانا چاہیے۔ اس کے لیے سرکاری سطح پر متعصبانہ اور نسل پرستی پر مبنی پروپیگنڈا کیا گیا۔ کچھ یہودی صورتحال بھانپ کر نکل بھی گئے لیکن ظاہر ہے کہ اکثریت کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ اس کی وجہ وسائل کی کمی کے علاوہ یہ بھی تھی کہ دوسرے یورپی ملک انھیں قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

دوسرے مرحلے میں یہودیوں کو شہر سے باہر گھیٹوز یعنی کچی بستیوں میں جبری طور پر منتقل کیا گیا۔ اگر آپ نے دی پیانسٹ جیسی فلمیں دیکھی ہیں تو یہودیوں کی گھیٹوز منتقلی کے مناظر یاد ہوں گے۔ ان بستیوں میں کوئی کاروبار نہ تھا۔ کوئی روزگار نہیں تھا۔ کھانے پینے کو نہیں تھا۔ دولت مند یہودیوں تک نے کسمپرسی کی زندگی گزاری کیونکہ ان کی جائیداد اور دولت حکومت نے چھین لی تھی۔ بہت سے یہودی ان بستیوں میں مرگئے۔

ہٹلر اس پر بھی مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ جرمنی اور اس کے زیر قبضہ علاقوں کو "پاک" کرنے کی دیوانگی میں مبتلا تھا۔ آخر نازی جرمنی کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ یہودی اگر ہمارا ملک نہیں چھوڑ رہے اور خود سے مر بھی نہیں رہے تو فائنل سولوشن یعنی آخری حل کا وقت آگیا ہے۔ پہلے نازی فوجی یہودیوں کو فائرنگ سے قتل کرتے تھے لیکن اس میں بہت وقت لگتا تھا۔ وقت بچانے کے لیے جرمنی اور پولینڈ میں کنسنٹریشن کیمپ قائم کیے گئے جہاں لاکھوں یہودیوں کو زہریلی گیس کے ذریعے تیزی سے قتل کیا گیا۔

نازیوں کو اس عمل پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ انھوں نے فخر سے سب کام کیے اور ویڈیوز بھی بناتے رہے۔ آج جتنی بھی ویڈیوز موجود ہیں، وہ سب نازیوں نے خود بنائیں۔ لوگ اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نازیوں نے ان ویڈیوز کو خود عوام تک پہنچایا تاکہ انھیں اس عمل میں شریک کریں۔ اپنے پروپیگنڈے سے یہودیوں کے خلاف نفرت بڑھاتے رہیں۔ ہم نے ید ویشم میوزیم میں موت کے کیمپوں کی تصویریں، ویڈیوز اور مقتولین کا اسباب دیکھا تھا۔ لیکن پروفیسر گریف نے نازیوں کی پروپیگنڈا مہم کے بھی پوسٹر دکھائے۔

تل ابیب میں ایک اہم ملاقات غیر سرکاری تنظیم امپیکٹ کے نمائندے سے ہوئی۔ میں ان کے کام سے بہت متاثر ہوا۔ یہ تنظیم تمام ملکوں کے پرائمری سے یونیورسٹی تک کے نصاب کا جائزہ لیتی ہے اور اس میں ان حصوں کی نشاندہی کرتی ہے جن سے عمومی طور پر اقلیتوں اور خاص طور پر یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میری دلچسپی مسلمان ملکوں میں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت مسلمانوں ملکوں کے نصاب دیکھے جارہے ہیں اور کئی ملکوں میں تبدیل بھی کیے جاچکے ہیں۔ ایک مختصر ملاقات اس نوجوان سے بھی ہوئی جو پاکستانی نصاب پر کام کررہا ہے۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ تنظیم کسی "بین الاقوامی سازش" میں ملوث نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے رہنما اصولوں پر عمل کے لیے کام کرتی ہے۔ اگر کسی ملک کا تعلیمی نصاب کسی بھی گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے تو یونیسکو سے اس کی شکایت اور اقوام متحدہ کی سطح پر اسے بدلنے کی سفارش کی جانی چاہیے۔

امپیکٹ کے نمائندے نے متحدہ عرب امارات کی سب سے زیادہ تعریف کی جس نے اپنے نصاب کو بقول اس کے، اسرائیل سے بھی بہتر بنالیا ہے۔ اس کے بعد محمد بن سلمان کو لائق تحسین قرار دیا جو سعودی عرب میں انقلابی اقدامات کررہا ہے۔ نمائندے نے کہا کہ جب ان کی تنظیم نے سعودی کورس کے بعض حصے محمد بن سلمان کو دکھائے تو اسے یقین نہیں آیا کہ اس کے ملک میں ایسی نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ اس کے بعد تیزی سے نصاب بدلنے کا کام شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

Check Also

Mehboob Se Ghair Mehboob

By Saadia Bashir