محبوب سے غیر محبوب
سنتے ہیں محبوب کی ہر خامی بھی ادا لگتی ہے اور محبت سات خون بھی معاف کروا سکتی ہے۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ محبت کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے۔ تبھی شاعر باقی عمر کو اضافی قرار دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں اسی ایک لمحہ پر ساری زندگی وار دی جاتی ہے۔ قتل و غارت کے بازار گرم رہتے ہیں۔ ڈیپریشن، فرسٹریشن، بے خوابی سب اسی محبت کے ذریات ہیں۔ کس کو علم ہوگا کہ ایک لمحہ کی یہ محبت کس لمحہ غیرت کی چادر اوڑھ لے گی۔
کون جانے کہ کب اور کہاں، کاروکاری اور تاوان کے سب لفظ چھوٹے پڑ جائیں گے اور محبوب کو کبھی چاردیواری اور کبھی زیر خاک قید کرنے کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔ یہ تو خیر معاشرتی عوامل ہیں۔ محبت شاید ان سے ماورا ہوتی ہے اور محبوب کے لیے قصہ خوانی کے مراکز بھی کم پڑ سکتے ہیں۔
ایک بابا جی بتایا کہ ان کے تعویذوں میں اتنی تاثیر ہے کہ ارگرد جتنے لوگ مچھلی کی طرح تڑپتے نظر آرہے ہیں۔ وہ سب کسی نہ کسی کے محبوب ہیں۔ لیکن وہ قدموں میں اس لیے نہیں کہ اس تعویذ میں غیرت کی مقدار بڑھا دی گئی تھی۔ بابا جی نے یہ بھی بتایا کہ وہ طب کی روشنی میں اکثر ایسے روحانی تجربات کرتے رہتے ہیں تاکہ روحانی دنیا میں انقلاب برپا کیا جا سکے۔ اگر تمام روحانی و بنگالی پیری و حکمت میں جان پڑ جائے تو بہت سے مناظر تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ لیکن مناظر کی تبدیلی پر ہمارا یقین ابھی ضعف کے مراحل طے کر رہا ہے۔
بابا جی کے انکشافات کا سلسلہ بہت سنگلاخ تھا۔ انھوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ویڈیوز سکینڈل تو آج کی بات ہے۔ روحانی دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں۔ روحانی تاریخ نے تو ان سب لے پالک کو بھی شفاف کر دیا ہے، جو پاکی پلیدی کے معانی تک سے نا واقف تھے۔ کافی دیر مراقبہ میں رہنے کے بعد بابا جی نے انکشاف کیا کہ یورپ کی ترقی کے چراغ پھرپھڑا رہے ہیں۔ ان پر ایسے تمام یورپی لیڈران کا سایہ ہے جو ننگے پیدا ہوئے تھے۔
اوباما کا زائچہ نکال کر بابا جی نے بتایا کہ آج کا یہ لیڈر گلی میں ننگے پیر کھیلا کرتا تھا اور بہتی ناک کو ہاتھوں سے پونچھتا تھا۔ دنیا کے ہر لیڈر کے بارے بابا جی خوب جانتے ہیں۔ ہمارے ہر گھر میں ایسے انکشافات کا مارے موجود ہیں۔ جو کسی بھی دھلی دھلائی نفیس شخصیت کو انکشافات سے دھونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ یہ قبولنے کو تیار ہی نہیں کہ کل کے بچے ہمارے ساتھ مکالمہ کر سکتے ہیں۔ اپنی خواہش کا اظہار کر سکتے ہیں۔ یہ نسل اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صلاحیت میں کمی بیشی ممکن ہے لیکن خواہش تو کر سکتی ہے۔ لیکن بابا جی مصر ہیں کہ وہ مرغی کی طرح پر پھیلا کر سب انڈے اپنی نگرانی میں رکھیں گے۔
بابا جی نے اصرار کیا کہ حقیقی محبت یہ ہی ہے اور اسے ہی محبت میں سات خون معاف کرنا کہتے ہیں۔ آنکھیں کھول کر نصاب اور یونیورسٹیز کی حالت دیکھی جائے تو صاف دکھائی پڑتا ہے کہ نوجوان نسل کے لیے تعلیمی ہدف حاصل کرنا بھی مشکل ہے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم نے نہ تو اپنے نوجوانوں کی تربیت کے لیے کوئی میکانزم بنایا اور نہ ہی ان کو ہنرمند بنا کر بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کرنے کے قابل بنایا۔ ہماری نئی نسل کے پاس وقت کی کمی نہیں، صرف ترجیحات متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اگر ہم نے ان کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب نہ کیا تو وہ اپنے قیمتی دنوں کو سستی میں ضائع کر دیں گے اور بیکار ہو جائیں گے۔
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم بابا جی کے تعویذوں پر بھروسہ کیے تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ بابا جی کا خیال ہے کہ محبوب کے ساتھ حسن سلوک سے کہیں زیادہ اہم اس کی حفاظت ہے۔ اس ضمن میں بابا جی نے His First Flight کا صرف وہ حصہ سنایا جس میں بگلا اڑنے سے خوف زدہ تھا اور اسے یقین تھا کہ اس کے پر کبھی اس کو سہارا نہیں دے سکیں گے۔ بابا جی نے یقین دلایا کہ کہ اگر بگلے کے ماں باپ اتنی مشقت اور ڈر کی بجائے بابا جی کے تعویذ لے لیتے تو بگلا پیدا ہوتے ہی اڑان بھر سکتا تھا۔
بابا جی نے یہ بھی بتایا کہ بگلے کو مچھلیاں پکڑنے کا گر انھوں نے ہی سکھایا تھا۔ دریا میں ایک ٹانگ پر بند آنکھوں کے جاپ کی بدولت مچھلیاں کیا، بہت سے مگر مچھ بھی بابا جی کے مطیع ہو گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بابا جی کو پتہ چلا کہ یہ مگر مچھ بھی مچھلیوں کی ہی ایک نایاب قسم ہے۔ بابا جی کو کرامات سے زیادہ کرامات کی تشہیر کا شوق تھا۔ کئی بار کچی پکی کرامت پکڑ کر اسے سوشل میڈیا پر چڑھا دیتے اور پھر مذید کہانیاں گھڑنا پڑتیں۔
بابا جی نے بتایا کہ وہ پچھلے دس سال جنگل میں گزار کر آئے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ جنگل کے تمام جانور ان کے تعویذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں جس شیر کو گولی ماری گئی۔ وہ اپنا تعویذ گھر پر بھول آیا تھا۔ ورنہ خلقت کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا۔ بابا جی کو بتانا چاہا کہ خلقت کی آنکھوں پر پردے نہیں ان کے صرف ہاتھ اور پاؤں بندھے ہیں۔ ہوائی کہانیوں کے نادیدہ کردار یہ رسی مذید مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ جہاں ذرا سا بھی شبہ ہو کہ رسی کھلنے والی ہے۔ شریعت کے پیچ کس کر ایک نئی کہانی نکالی جاتی ہے۔ جس کے عتاب سے خوف زدہ لوگ بابا جی کو ہی محبوب بنانے رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔ بابا جی کی پٹاری میں رسیاں بھی سانپ لگتی ہیں۔