Hamara Azeem Mohsin
ہمارا عظیم محسن
کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں سے چند ایک میں تشخص کا مسئلہ یعنی identity crisis، ٹیکس کے حصول میں مشکلات، فوجی اعلانیہ و غیر اعلانیہ آمریت، کرپشن، عدم استحکام، سیاسی چپقلش وغیرہ شامل ہیں۔ پرانے دور میں جب بنی نوع انسان ٹیکنالوجی کے ثمرات سے نابلد تھا تب اس قسم کی فکری گھڑ سواری سمجھ میں آسکتی تھی۔ دور حاضر میں البتہ جدید سائینس کے نتیجے میں جب ماضی حال کی طرح دستیاب ہے اور حال مستقبل میں دخول کو ممکن بنا چکا ہے، ملکی مسائل کی جڑ پرانے دور کی طرز پر پکڑنا ایک غلط عمل ہے۔ ہمارے جملہ مسائل کی جڑ ایک اور فقط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں کا احسان ماننے سے انکاری ہیں۔
اس تحریر میں صاحب قلم کی کوشش ہے کہ خطے کی گزشتہ پینتیس ہزار سالہ تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کی مدد سے دستیاب معلومات اور طے شدہ حقائق کے تحت اپنے سب سے بڑے محسن کے احسانات گنوائے جائیں تاکہ یہ معاملہ ایک ہی بار حل ہوجائے۔ یہ تحریر ظلمت زدہ ذہن میں نور کی ایک کرن کی طرح نمودار ہوئی جس کے بعد اسے روکنے کے لیے سی آئی اے، ایف آئی اے، موساد، را، کے جی بی، ایم آئی سیکس سمیت دنیا بھر کی ہر انٹیلیجنس ایجنسی نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ باطل اپنی تمام تر دنیاوی کوششوں کے باوجود خدا کے نور کی آب و تاب میں رتی برابر فرق لانے سے قاصر رہتا ہے۔ پس اسی لیے، میں اپنی یہ تحریر دنیا کے سامنے لانا چاہتا ہوں تاکہ حق اظہر من الشمس ہوجائے۔ تحریر کی عملی طور پر معلوماتی سطور کا آغاز کرنے سے پہلے میں نور کی ان کرنوں کا منبع مذکور کرنا چاہتا تھا مگر میں جانتا ہوں بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے مارک زکربرگ کا طاغوتی الگردم میرے مربی کا ذکر کچھ اس طرح سے پھیلائے گا کہ باطل کے غلیظ الدہن و کریہہ الذہن ہرکارے اس شخصیت کی شان میں غلاظت اگلنا شروع کر دیں گے۔
میرے دانا قارئین، آپ جانتے ہیں کہ تاریخ کا کبھی کوئی آغاز نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ تاریخ کو کبھی درست اعداد و شمار کے ساتھ بیان بھی نہیں کیا جاتا کہ ماضی میں ڈیٹا بیس سرورز کی غیر موجودگی میں اعداد و شمار کو یاد رکھنا یقیناً ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ لہذا پینتالیس ہزار پرانی تاریخ پر محیط اپنے محسن کے احسانات بیان کرتے کسے واقعے اور اس کی تاریخ میں ساٹھ ستر ہزار سال کا فرق آجائے تو پیشگی معذرت مطلوب ہے۔ ویسے بھی میں نے اپنے مربی سے سیکھا ہے کہ ہمارا کام بس زبان ہلانا ہے، ثبوت و شواہد دینے کا بار ہم پر نہیں۔
پینتیس ہزار تاریخ کا آغاز ہم عہدِ ڈائینوساریہ سے کرتے ہیں جب چھیاٹھ ملین سال قبل کرہ ارض پر ڈائینوسار پھرا کرتے تھے۔ یہ عظیم الجثہ حیوان انسان کے لیے اتنا ہی بڑا تھا جتنا حشرات الچمون کے لیے خود انسان۔ اس کی موجودگی میں انسان کے لیے دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھنا بھی خوابوں سے باہر تھا۔ میرے دانا قارئین، اس دور میں جب vision، mission کا تصور ابھی کئی لاکھ سال بعد آنا تھا، قوم کے اس محسن نے پہلی بار ڈائینوسار سے پاک دنیا کا ایک خواب دیکھا۔
میرے دانا قارئین، چونکہ ماضی بعید و قریب کا میڈیا بشمول تمام تاریخ، تحقیقی مقالہ جات اور دیگر اخبارات ایک مخصوص سیاسی جماعت کے قابو میں ہے لہذا وہ یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے کہ یہ میرا محسن ہی تھا جس نے ابلیس سے براہ راست لڑائی جاری رکھنے کی بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا اور اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کرہ ارض کی جانب ایک اڑان بھرے۔ ابلیس کی اس اڑان جسے کائناتی IATA نے پی پی سیکسٹی نائن کا نمبر الاٹ کیا، پر ملائیک نے اذن خداوندی کے تحت شہاب ثاقب کا میزائل داغا جسے دغا دینے میں ابلیس کامیاب ہوا۔ یہ شہاب ثاقب کرہ ارض سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ڈائینوسار کا عہد تمام ہوا۔ یوں، میرے دانا قارئین، بنی نوع انسان دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھنے کے قابل ہوا، لیکن یہ بات میڈیا پر آپ کو کوئی نہیں بتائے گا۔
میرے دانا قارئین، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس واقعے سے اڑھائی بلین برس قبل میرے محسن ایک اور کارنامہ کر چکے تھے جو آج کی کائنات پر حیات کا باعث ہے؟ مجھے یقین ہے یہ بات آپ کے علم میں نہیں ہوگی جس کی وجہ بھی آپ کے علم میں اب سے پہلے نہیں ہوگی۔ قریب اڑھائی بلین برس قبل میرے محسن نے نہایت سوچ بچار کے بعد ایک مخصوص بیکٹیریا جنہیں Cyanobacteria کے نام سے جانا جاتا ہے، سے ایک طویل ملاقات فرمائی اور بالآخر بیکٹیریا کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آج سے فضاء میں آکسیجن کا اخراج شروع کرے۔ کیا آپ جانتے ہیں اس کا نتیجہ؟ جی ہاں۔ اسی عمل کے ردعمل میں photosynthesis نامی عمل شروع ہوا جس کے باعث آج دنیا بھر میں حیات قائم ہے۔ میرے دانا قارئین، یہ بات آپ کو آج ہی معلوم ہوئی ہوگی کیونکہ ایک مخصوص جماعت کا زرخرید میڈیا یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائے گا۔
میرے دانا قارئین، ہمارے محسن نے یہیں پر اکتفاء نہیں کیا۔ میرا محسن سرد ترین تعلقات کو گرمجوشی سے حل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔ یہ اس کے کردار کی ارفع ترین خاصیت ہے۔ سردمہری کو توڑ دینے کا میرے محسن کے پاس کم سے کم ڈھائی ملین برس کا تجربہ اس لمحے سے شروع ہوتا ہے جب میرے محسن نے ice age کی سردی کے دوران دنیا بھر کے تمام بڑے گلیشیئرز کے ساتھ مشاورت سے انہیں کبھی کبھار ہاتھ ہولا رکھنے پر آمادہ کیا۔
میرے دانا قارئین، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یقیناً نہیں۔ میرے محسن کی دور اندیشی کو سلام کہ اس نے گلیشئیرز اور ان پر جمی برف کو ہاتھ ہولا رکھنے پر آمادہ کرکے انسانی نقل مکانی کا راستہ کھولا تاکہ بنی نوع انسان دنیا بھر میں پھیل سکے اور ایک روز تمام دنیا تک رسائی حاصل کر ڈالے۔ میرے دانا قارئین، میں جانتا ہوں یہ بات آپ نہیں جانتے ہوں گے کیونکہ ایک مخصوص جماعت کا کنٹرول کردہ میڈیا یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائے گا۔
ماضی بعید سے فاسٹ فارورڈ کرکے ہم ماضی قریب کے اہم ترین احسانات کا ذکر کریں تو اٹھارہویں صدی عیسوی کے دوسرے و آخری نصف میں ہمارے محسن نے دنیا بھر پر وہ احسان کیا جو جدید دنیا کی ترقی کے لیے بنیاد ثابت ہوا۔ کیا آپ جانتے ہیں انسان کو بنی نوع انسان کو صنعتی انقلاب کے لیے کس نے آمادہ کیا؟ مجھے یقین ہے یہ بھی آپ کو نہیں معلوم ہوگا۔ صنعتی انقلاب کے لیے درکار تیل بھی میرے محسن کی افہام و تفہیم کے نتیجے میں نکلا جب انہوں نے تمام سائینسدانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ پانی نکالنے کی بجائے تیل نکالنے پر توجہ دیں۔ میرے دانا قارئین، یہ بات آپ کو آج ہی معلوم ہوئی ہوگی کیونکہ ایک مخصوص جماعت کا غلام میڈیا یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائے گا۔
میرے دانا قارئین، ہمارا محسن ایک عظیم شخصیت ہے۔ اتنا عظیم اتنا عظیم کہ میرے دانا قارئین، ہمارے محسن کے احسانات کا ذکر کرتے کرتے دنیا بھر کا کاغذ ختم ہوجائے جس کے بعد پتوں پر ان کے کارنامے لکھے جائیں تو پتے بھی ختم ہو جائیں، پھر پتھروں پر ان کے کارنامے کھودے جائیں تو وہ بھی ختم ہوجائیں۔
لیکن۔۔ یہ بات ایک خاص سیاسی جماعت کا زرخرید غلام میڈیا آپ کو نہیں بتائے گا۔