Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Asad Tahir Jappa
  3. Social Media Ka Shukriya

Social Media Ka Shukriya

سوشل میڈیا کا شکریہ

سوشل میڈیا کے ساتھ جڑے کئی خرافات کے باعث اس پر تنقید کے بے شمار پہلو ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے زندگی کے کئی شعبوں کا ڈھانچہ یکسر بدل ڈالا ہے۔ اس کے بہت سے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے ذرا مارکیٹنگ کے شعبے پر ہی نظر ڈال لیں۔ ماضی قریب میں ہم سب نے دیکھ رکھا ہے کہ کس طرح ملک بھر کے تقریباً سبھی چوک، چوراہوں اور شاہراہوں پر اشتہارات اور عبارات نے اک مخصوص نوعیت کی آلودگی پھیلا رکھی تھی۔ شاید ہی کوئی نمایاں بلڈنگ یا بڑی دیوار ایسی ہو جس پر جلی حروف میں مختلف مصنوعات اور اشیاء خوردونوش کی تشہیری مہم نہ چلائی گئی ہو۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لگ بھگ دو دہائیاں قبل سول سروس اکیڈمی میں تربیت کے دوران جب ہم دس ایام پر مبنی کنٹری سٹڈی ٹور پر لاہور سے پشاور روانہ ہوئے تو تمام سفر میں قومی شاہراہوں پر جو اشتہار سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا رہا وہ ایک ہیلتھ سینٹر کا تھا۔ ان دس دنوں میں ہم پشاور سے طورخم بارڈر پر پہنچے اور پھر صوابی، تربیلہ ڈیم، مانسہرہ، سوات، مالم جبہ، شوگران اور کالام کے پر فضا سیاحتی مقامات تک سفر اختیار کیا مگر مجال ہے کہ ہیلتھ سینٹر اور اس کی امراض مخصوصہ اور مردانہ کمزوری کے علاج میں منفرد مہارت کے دعوؤں پر مبنی اشتہارات نے ہمارا ساتھ چھوڑا ہو۔

کچھ اس سے ملتا جلتا رجحان رنگ گورا کرنے والی کریم اور اسی طرح کی دیگر مصنوعات کا بھی رہا ہے۔ مگر اب سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے درودیوار، قومی شاہرات اور دوسرے نمایاں مقامات اس آلودگی سے پاک ہو چکے ہیں۔ بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اب شاید ہی کوئی شخص رہ گیا ہو جس نے سوشل میڈیا پر مردانہ کمزوری کے علاج معالجے کے متعلق اپنی ماہرانہ رائے، طبی مشورے اور جادوئی ٹوٹکے شیئر نہ کیے ہوں۔

ڈاکٹر صاحبان کے علاوہ بہت سے باریش بزرگان کی اک بڑی تعداد اسی شعبے میں اپنی مہارت دکھا رہی ہے جبکہ چند ایک جید علماء بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی میں ٹیلی ویژن کے چند اینکرز اور ہمارے قلمکار قبیلے میں سے کچھ کالم نگار بھی اپنے آزمودہ نسخے لے کر جہاں شادی سے مایوس افراد کی رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں وہاں وہ ازدواجی زندگی کو مزید خوشگوار بنانے کے لئے اپنے مجرب نسخے آزما رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن انٹری خواتین کی ہے جنہوں نے باقاعدہ اپنے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں اور وہ اس موضوع پر دل کھول کر اپنی ماہرانہ رائے دینے کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کے شرطیہ علاج کے دعوے بھی کرتی پائی جاتی ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے معاشرے میں ٹرانس جینڈرز اور کھسروں کے متعلق پائی جانے والی تنگ نظری اور تعصب میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان پیشہ ورانہ رقص کے مظاہرے کے علاوہ جو حرکات و سکنات کرتے نظر آتے ہیں اس سے کھسروں کو محض قابل رحم مخلوق سمجھنے والے جذبات میں نمایاں کمی متوقع ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں کھسروں کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا تھا تاکہ ماحول کو گرمایا جا سکے مگر اب وہی کام ہمارے نوجوان خود بطریق احسن انجام دینے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں کیونکہ ان کے ٹھمکے نہ صرف موقع پر موجود مہمانوں سے داد وتحسین سمیٹتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کی زینت بھی بنتے ہیں جن کی بدولت ان کے مداحوں میں گراں قدر اصافہ کے ساتھ ساتھ ڈالروں میں کمائی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر میسر ہونے والی سستی شہرت اور مقبولیت کے باعث بہت سے مولوی حضرات بھی ٹھمکے لگانے میں جت گئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کے سبب وہ بہت جلد وائرل بھی ہو جائیں گے اور دنوں میں ان پر ڈالروں کی برسات بھی شروع ہو جائے گی۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر ملنے والے ہمہ وقت مفت طبی مشوروں، مستند نسخوں اور مجرب ٹوٹکوں کی وجہ سے غریب، نادار اور لا چار مریضوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ وہ اب گھر بیٹھے نزلہ، کھانسی، بخار اور دیگر ہلکھی پھلکی امراض کے علاج معالجے میں خود کفالت حاصل کر چکے ہیں۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر موجود گوگل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل خود ساختہ طبی ماہرین تو شوگر، بلڈ پریشر، امراض قلب، جگر کے عارضے اور کینسر سمیت جملہ جان لیوا امراض کے علاج معالجے کے متعلق بھی بہت پر اعتماد انداز میں اپنے ٹوٹکے شیئر کرنے میں بھی ہرگز تعامل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کی چرب زبانی اور اعتماد سے متاثر ہو کر کئی مریض ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کردہ ادویات کو چھوڑ کر ان ٹوٹکوں کو آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے بے روزگار افراد کو جہاں آسان روزگار کے وسیع مواقع میسر آئے ہیں وہاں بہت سے باصلاحیت نوجوانوں کو ا پنے فن اداکاری کا عملی مظاہرہ کرنے کے مواقع بھی مل گئے ہیں جو کسی ٹیلیویژن ڈرامے میں یا شوبز کی دنیا میں مناسب چانس نہ ملنے کے سبب مایوسی کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ اب اپنے موبائل سے تصاویر اور وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ماڈلنگ اور اداکاری کے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں جس سے نہ صرف ان میں پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ہوا ہے بلکہ وہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ وہ ڈالروں کی کمائی سے بھی استفادہ کر رہے ہیں۔

دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے چوروں اور ڈاکوؤں کی زندگیوں میں آسودہ حالی کے چراغ روشن کر دیئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر جس طرح صاحب حیثیت افراد لمحہ بہ لمحہ سٹیٹس لگا کر اپنے محل نما گھروں، بیش قیمت گاڑیوں اور دیگر قیمتی اشیاء کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں اس سے یقیناً چوروں اور لٹیروں کے پاس مستند معلومات کا بیش قیمت ذخیرہ اکھٹا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک مؤثر اور مضبوط واردات کی ٹھوس منصوبہ بندی کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اپنے مال مسروقہ کی تقسیم کے وقت وہ دیوانہ وار سوشل میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوں گے جس کے باعث انہیں پے در پے کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

Check Also

Muhabbat

By Naveed Khalid Tarar