Kis Color Ki, Hamari Ikhlaqiat
کس کلر کی، ہماری اخلاقیات
فحش فلموں کی غیر ملکی اداکارہ کائے اساکرا کو لاہور کی کشش پاکستان کھینچ لائی۔ اداکارہ نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر لاہور کی سیر کے دوران تصاویر شیئر کی ہیں۔ کائے اساکرا کو بالغوں کی فلم انڈسٹری میں رائے لِل بلیک، کے نام سے جانا جاتا ہے، جنھیں حال ہی میں لاہور کی گلیوں اور تاریخی مقامات کی سیر کرتے دیکھا گیا۔ (یہ ایک اخبار کا بیانیہ ہے)
اب یہ آج کل ہم پاکستانیوں کا بہترین سرچ ہے۔ سب سے بڑھ کر بھلا ہو اس کا جس نے اسے پاکستان بلوایا تھا۔ کم از کم اس فلم انڈسٹری کو علانیہ طور پر پتہ چلا کہ پاکستان میں بھی اتنے اچھے لوگ ہیں جو نہ صرف فلمیں داؤن لوڈ کر سکتے ہیں بلکہ قیمتی قیمتی لوگ بھی پاکستان بلائے جا سکتے ہیں۔۔ اگر آپ کو یاد ہو ایک بیچاری پاکستانی ٹک ٹاکر ایوان صدر اور وزیر اعظم میں پچھلی حکومت میں فوٹو کھینچوائی تھی ادھم مچ گیا تھا حالانکہ ان بیچاروں کو اگر حکومتی سطح پر سر پرستی نہ ملے تو یہ کہاں ان ایوانوں میں جا کر فوٹو شوٹ کرا سکتی ہیں، سرینا کہ پول میں نہا سکتی ہیں جبکہ بندہ ناچیز اسلام آباد کے سرینہ میں سو مرتبہ پتہ نہی کس کس کلر کی چڈی پہنے کر گیا ہے گارڈ نے نہیں چھوڑا اور پاگل سمجھ کر نکال دیا۔۔
اسی طرح آج کل ریڈ لائٹ معذرت معذرت (ریڈ زون) کے قریب سے گاڑی بھی نہیں گزرنے دیتے۔۔ اگر آپ بحث کریں تو پھر وہاں تک جھانکتے ہیں جہاں تک شرعی طور پر ہاتھ بھی نہی جاتا۔۔ اوپر سے کئی مرتبہ ان سیکورٹی اداروں کو بتایا کہ یار ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ محترمہ کا جواب ٹھیک لگتا ہے کہ "نہی پہنے نا" پھر بھی سب کچھ چھاننے کے بعد کہتے ہیں کہ گاڑی واپس لو۔۔ خیر تو عرض خدمت ہے۔۔ کہ یہ کمال کا ہنر ہمارے میڈیا کو عطا ہوا ہے کہ آیا غیر ضروری، بے غیرت پر مبنی خبر کو بھی اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ وہ بریکنگ نیوز بن جائے۔۔
شاید جاپان میں اسے (برقہ پوش) حسینہ کی گلی میں بھی کوئی نہ جانتا ہو۔۔ اس کے پاکستانی میزبان نے اسے یقین دلایا ہوگا کہ تم جانو پاکستان آو۔۔ برقعے میں بھی تمہیں ٹاپ ٹرینڈ نہ بنا دیا تو نام بدل دینا۔۔ خوشی مجھے اس بات کی ہے کہ 1993 میں مجھے جاپان جانا نصیب ہوا تھا۔۔ ان پریوں کا سحر آج تک دماغ و دل پر قابض تھا۔۔ اب شکر ہے ایک جاپانی نام سرچ کرنے میں آسانی ہوگئی۔۔ ورنہ پہلے تو یہ علم ہی نہی تھا کہ جاپانی والا ٹوٹا کیسے سرچ کیا جائے۔۔ اب کم از کم اتنی تو میسر ہے۔۔ جتنی ہم سوچ لیا کرتے تھے کسی زمانے میں۔۔
نہ صرف ہر نیوز چینل (سوشل میڈیا) اسے اچھال رہا ہے بلکہ اسے دین کے لبادے میں پیش کرنے کی کوشش کرکے یہ ظاہر کر رہا ہے کہ شاید مفتی قوی یا ان کے ہم عصر نے دین کی تبلیغ کے بعد ایک عقد ثانی بلکہ لاثانی کرکے محترمہ کو وہ مینار دکھانے پاکستان لائے ہیں جو پرانی شراب کی طرح اب بھی مضبوطی سے کھڑے ہیں۔۔ یہ عبایہ کا وہ استعمال ہے جسے پاکستان میں ہی صرف عزت کی نگاہ سے شاید دیکھا جاتا ہوگا۔۔ ورنہ باہر کسی بھی اسلامی ملک میں یہ باپردہ اور صرف باپردہ خواتین کی نشانی ہے۔۔
میں بس اتنا کہوں گا مجھ سمیت جو ان سب چیزوں کو پرموٹ کر رہا ہے اس پر لعنت ہو اور بےشمار ہو۔۔ کیونکہ صرف اس کی تصاویر سے کتنے نوجوان اس صنعت اور پورنو گرافی کی سرچ کریں گے اور اس قبیح فعل میں لت پت ہوں گے۔۔ اس کا عذاب ہر اس شخص، طبقہ یا فنانسر کو ضرور جائے گا جو اسے شئیر کر رہے ہیں۔۔ خدا کے لئے اگر یہ عورت یہاں جینز کی پینٹ اور شرٹ میں بھی پھرتی اسے کوئی نہ پہچانتا۔۔ کس مہربان نے آکے اس کے فالورز میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے۔۔
خدا کے لئے مہنگائی، بھوک سے تڑپتے خاندانوں کا سوچیں جن کی بچیاں، عورتیں عزتیں بیچنے پر مجبور ہیں۔۔ جن کے بچے فضول لت میں پڑ رہے ہیں اور ناکارہ ہو رہے ہیں۔۔ لیکن جس بھی شخص یا ادارے نے اسے پاکستان بلوایا یا ذاتی طور پر یا کسی پراجیکٹ کی تکمیل پر اسے چاہئے تھا اس کی کم از کم تشہیر نہ کرتا۔۔ ایک عام عورت کو جسے کبھی کوئی نہ جانتا۔۔ ایک سپر ہیروئین بنا دیا گیا ہے۔۔ لیکن جو ایسا کر رہے ہیں وہ اپنے اس کردار کو کارنامہ تصور کر رہے ہوں گے۔۔
ترجمہ: جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ (النور)