Kya Greater Israel Ka Mutalba Aur Khwahish Ghalat Hai?
گریٹر اسرائیل کا مطالبہ اور خواہش غلط ہے؟
جیسے سکھ خالصتان کے لیے اور جیسے باطلان پشتونستان کے لیے اور جیسے سرائیکی سرائیکستان کے لیے مطالبے کرتے رہتے ہیں اور اپنی خواہشات کے مطابق اپنی مجوزہ سلطنت کے نقشے جاری کرتے رہتے ہیں بالکل ویسے صہیونی بھی اپنے وطن کے لیے توسیع پسندانہ عزائم رکھتے اور اُن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار و خواہش جیسے سکھوں، باطلان اور سرائیکیوں کا بنیادی انسانی حق ہے ویسے یہودیوں کا بھی ہے۔
توسیع پسندوں کو نوید ہو کہ کل ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کنیڈا کو امریکہ کی ریاست بنانے میں دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔
سعودی عرب نے آج گریٹر اسرائیلی نقشے کو متنازع قرار دے کر اُس کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اُسے مسترد کر دیا ہے۔ یہ استرداد و ارتداد بطور ریاست سعودی عرب کا بنیادی جمہوری حق ہے۔ ہم پاکستانیوں کو اِس پہ بغلیں بجانے کی کیا ضرورت ہے؟
تصاویر میں بڑے بڑے عرب ممالک مصر، اردن اور شام کے سامنے موجودہ اسرائیل کا جغرافیہ محض ایک بڑے شہر جتنا ہے۔ گریٹر اسرائیل کے نقشوں میں عرب ممالک کے بعض علاقوں کو گریٹر اسرائیل کا حصہ قرار دینے پر سعودی عرب کو تکلیف ہے تو یہ اُس کا ملکی مسئلہ ہے۔ کیا سعودی عرب اور دیگر ہمسایہ عرب ممالک اپنے صحراؤں کا کچھ حصہ اسرائیل کو دے کر اسرائیلی عوام کی لازمی انسانی ضرورت پوری نہیں کرسکتے؟
تصاویر میں اسرائیل کی تاریخی اور مطلوبہ سرحدوں کا حوالہ دینے کے لیے irredentist انداز میں دکھایا گیا نقشہ موجود ہے۔
یاد رہے کہ جب صہیونیوں نے اپنے لیے national home کا مطالبہ کیا تھا تب سیاسی اصطلاح "قومی گھر" یا "نیشن سٹیٹ" کی بین الاقوامی قانون میں کوئی نظیر موجود نہیں تھی۔ آج ساری دنیا نیشن سٹیٹ کے نظریے کو دل و جان سے قبول کیے ہوئے ہے۔ ایک چھوٹے سے علاقے میں رہنے والی ایک قوم کی وجہ سے آج پوری دنیا اُس بنیاد پہ تشکیل پاچکی ہے جس کا کسی مذہبی صحیفے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ انسانی عزم کی کامیابی کی تابناک مثال ہے۔