تحریک انصاف کو ایک بار پھر عدلیہ سے"انصاف" کی امید
تقریباََ 15سال قبل نام نہاد عدلیہ بحالی تحریک کی بدولت افتخار چودھری چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے تو خود کو دورِ حاضر کا مسیحا ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے اس شخص نے منتخب ایوانوں میں بیٹھے افراد کی اکثریت کو "چوراور لٹیرے" ہی نہیں بلکہ جعلی ڈگریوں والے بھی ثابت کیا۔
صحافیوں کی دوکان مگر اس کی جگاشاہی سے چمک اٹھی۔ مجھ جیسے لوگ فریاد کرتے رہے کہ خود کو مسیحا ثابت کرنے کے جنون میں سپریم کورٹ میں کوٹہ سسٹم کی بدولت گھسا یہ جج درحقیقت پورے جمہوری نظام کی ساکھ تباہ کررہا ہے۔ جمہوری نظام اپنی ساکھ تباہ کرنے کے بعد کمزور ہوگیا تو ریاست کے دائمی محافظوں کا اگلا نشانہ صحافی ہوں گے۔ دُکھ کی بات ہے کہ میرے اندیشے درست ثابت ہوئے۔
ہمارے سیاسی منظر نامے پر اکتوبر2011ء میں کرشمہ سا ز کرکٹر سے سیاستدان ہوئے عمران خان کی بنائی جماعت تحریک انصاف کی احیائے نو بھی ہوگئی۔ خود کو "نئی نسل" کی نمائندہ ٹھہراتی اس جماعت نے سوشل میڈیا کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے ان صحافیوں کو "لفافہ" قرار دیا جو مذکورہ جماعت سے متفق نہیں تھے۔ صحافی کے لئے اپنی ساکھ اور مقبولیت بچانے کے لئے لازمی ہوگیا کہ وہ ہر وقت عمران خان کو پاکستان کایک وتنہا ایماندار سیاستدان ثابت کرے۔ "باریاں لینے والے" سیاستدانوں کے خلاف ابھرے اس "تھرڈ آپشن" کو ہمارے مقتدر کہلاتے حلقوں نے بھی کھل کر سپورٹ کیا۔
افتخار چودھری کی سپریم کورٹ سے رخصتی کے بعد چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے ثاقب نثار بھی "تیسرے آپشن" کو "صادق وامین" ٹھہرانے کوتل گئے۔ آصف سعید کھوسہ نے پارسی تھیٹر کی روایات کے مطابق گرجدار فقرے لکھتے ہوئے موصوف کا بھرپور ساتھ دیا۔ یوسف رضا گیلانی کے بعد نواز شریف بھی پارلیمانی نظام کے قواعد وضوابط یا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نہیں بلکہ براہِ راست سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل ٹھہرائے گئے۔
ہم میڈیا والوں کی بے پناہ اکثریت نے وزرائے اعظموں کو گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کرنے کی اس مہم میں ازخود مسیحا بنے ججوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ کئی برسوں تک قوم کو اس مغالطے میں رکھا کہ عدلیہ اور صحافی مل کر وطن عزیز کو کرپشن سے پاک کردینے کے بعد عمران خان صاحب جیسے صادق وامین دیدہ ور کی قیادت میں ترقی وخوشحالی کی راہ پر ڈال دیں گے۔
بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔ ان کی جگہ برسراقتدار آئی بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت نے فوری انتخاب کی راہ اختیار کرنے کے بجائے ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل شروع کیا تو مہنگائی کے سیلاب نے لوگوں کی چیخیں نکلوادیں۔ اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر جاکر ریاست کے طاقتور اداروں میں موجود "میر جعفروں" کو للکارنا شروع ہوگئے۔
پاکستانیوں کی موثر تعداد کو اس امر پر قائل کردیا کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے موصوف کو روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کی خواہش سے ناراض ہوکر اقتدار سے فارغ کروایا ہے۔ "میر جعفر" کا لقب پانے کے باوجود قمر جاوید باجوہ ان دنوں کے صدر کی وساطت سے عمران خان سے درپردہ ملتے رہے۔ ریاست کے طاقتور ترین ادارے کی سربراہی سے دست بردار ہونے کو موصوف کا لالچی ذہن تیار نہیں تھا۔ اپنے عہدے کی معیاد ملازمت میں لیکن پہلے ہی تین سال اضافے کا فائدہ اٹھاچکے تھے۔ مزید اضافے کی گنجائش نہیں تھی۔
قمر جاوید باجوہ کی جاہ طلب ہوس نے جو خلاء پیدا کیا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عدلیہ میں موجود عمران خان کے "ہم خیال" متحرک ہوگئے۔ ہم صحافیوں کی دوکان دوبارہ چمک اٹھی۔ روایتی میڈیا سے زیادہ ججوں کی "آئین پسندی" نے سوشل میڈیا پر وابستہ ہمارے ساتھیوں کو حق وصداقت کی علامتیں بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پنجابی کا ایک محاورہ مگر متنبہ کرتا ہے کہ گھسن (گھونسہ)ربّ سے ز یادہ قریب ہوتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی حقیقت فراموش نہ کرو۔ "لاٹھی" بالآخر حرکت میں آئی۔ آئین میں 26ویں ترمیم ہوگئی۔ سپریم کورٹ کو مذکورہ ترمیم کی بدولت نظر بظاہر دو حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ "آئینی معاملات" پر غور کرنے کے لئے الگ سے مختص بنچ تشکیل پایا۔ سپریم کورٹ کی وجہ سے روایتی اور سوشل میڈیا پر جو رونق لگاکرتی تھی بتدریج ماند پڑنا شروع ہوگئی۔
ربّ کریم تاہم پتھر میں بند ہوئے کیڑے کو بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاکھ لاکھ شکر کہ رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ان درخواستوں کی سماعت شروع کردی ہے جو عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف پیش ہوئیں۔ شہریوں کے فوجی عدالتوں سے ٹرائل کا ذکر ہو تو ہمارے ذہن میں نو مئی 2023ء کے واقعات کے سوا کچھ اور آتا نہیں۔ اس دن عمران خان کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کی خبر سننے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں مبینہ طورپر تحریک انصاف کے حامی فوجی تنصیبات میں در آئے تھے۔ وہاں توڑ پھوڑ کے علاوہ اشتعال انگیز نعروں کا الزام بھی ہے۔
عمران خان اور ان کے حامی مصر ہیں کہ ان کی جماعت کے لوگ مذکورہ واقعات کے ذمہ دار نہیں تھے۔ نو مئی کے واقعات درحقیقت "فالس فلیگ آپریشن" تھے۔ مقصد ان کا تحریک انصاف کو بدنام ہی نہیں بلکہ اس کے متحرک کارکنوں کو "بے بنیاد الزامات" کے تحت گرفتار کرنے کے بعد مفلوج بھی کرنا تھا۔ 85کے قریب لوگوں کو نو مئی کے واقعات کی وجہ سے سزا سنادی گئی ہے۔ ان میں سے 19کو حال ہی میں "رحم" کی بنیاد پر رہا کردیا گیا۔ بقیہ لوگوں کی قسمت اسی مقدمہ کے فیصلے کے بعد ہی واضح ہوگی جو ان دنوں سپریم کورٹ کا آئینی بنچ سن رہا ہے۔
فیصلہ جوبھی ہو۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں شہریوں کی فوجی عدالتوں سے سزاؤں سے متعلق اپیل نے ایک بار پھر روایتی اور سوشل میڈیا کا سپریم کورٹ کے حوالے سے "سیزن"لگادیا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ مذکورہ بنچ کے کم از کم تین معزز جج صاحبان سخت سوالات کے ذریعے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو زچ کررہے ہیں۔ خواجہ حارث کے "زچ" ہونے کی اطلاع سن کر تحریک انصاف کو ایک با ر پھر عدلیہ سے "انصاف" ملنے کی امید ہے۔ یہ امید ٹرمپ کی وائٹ ہائوس واپسی کے بعد مزید تقویت حاصل کرسکتی ہے۔ بالآخر جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ ذاتی طورپر میں اس لئے خوش ہوں کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے ہم صحافیوں کی دوکان ایک بار پھر رونق لینا شروع ہوگئی ہے۔