Friday, 10 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Ustadon Ki Kahani

Ustadon Ki Kahani

استادوں کی کہانی

رزق کا دروازہ اللہ رب العزت نے سب کے لیے بہت وسیع رکھا ہوا ہے۔ بنا کسی مذہب، رنگ، نسل، قومیت اور سرحدی اختلاف کے، وہ سب پر یکساں کھلا ہے۔ اس دروازے کو کھولنے کا نہیں بلکہ اسے خود پر بند کرنے کا طریقہ ہمیں پاکستان میں ہر جگہ پر سکھایا جاتا ہے۔

تعلیم حاصل کرو، تمہیں نوکری ملے گی۔ ایسا ہمیں ہمارے استاد بتاتے ہیں۔ کون استاد؟ جو تعلیم نہیں دے رہے بلکہ خود نوکری کر رہے ہیں۔ وہ تعلیم دے رہے ہوں تو کیا اگلی نسل اور اپنے پیدا کردہ بچوں کو اپنے جیسا مستقبل دینے کی بات کریں؟

بارہ چودہ سال پرانی بات ہے۔ وطن عزیز میں نویں سکیل میں سولہ اور اٹھارہ سالہ تعلیم کے بعد ذہین ترین دماغ پرائمری اسکول ٹیچر بھرتی ہوا کرتے تھے۔ میں نے بھی بچپن سے یہی سن رکھا تھا۔ کہ جو بھی جیسی بھی ملے سرکاری جاب لے لینی چاہئیے۔ ماسٹرز کیا ہی تھا کہ نواں سکیل مجھے بھی مل گیا۔ مٹھائی لے کر سے سب سے پہلے انیسویں اسکیل کے اپنے استاد کے پاس گیا۔ انہوں نے گالیاں دیں اور خوب بے عزتی کی کہ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔ کیا حاصل کر لیا ہے جو مٹھائیاں بانٹ رہے ہو؟ کسی چوک میں کھڑا دھول مٹی پھانکتا ایک ٹریفک وارڈن تم سے سکیل اور تنخواہ میں لگ بھگ ڈبل ہے۔ پرائمری سکول کا ماسٹر بن کر ریٹائر فوجی سپاہییوں سے اپنی انسپیکشن کروا کر، سکول کے بعد رات تک اکیڈمیاں پڑھا کر، سالانہ چھٹیوں کے فریب میں آکر، خود کو ضائع کرنا ہے تو مجھے اپنا استاد نہ بتانا کبھی۔

گاؤں آیا تو اپنے اسکول کے اساتذہ سے مشورہ کرنے گیا۔ مجھے یہ جاب جائن کرنی چاہئیے یا نہیں؟ سب نے بیک زبان کہا اسے چھوڑنے کی کبھی غلطی مت کرنا۔ میرے ان استادوں میں سے دو تین اساتذہ کے بچے اسی اسکیل کو جائن کر چکے تھے اور وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش تھے کہ تمہیں جاب مل گئی۔

جائننگ والے دن میں لاہور اپنی یونیورسٹی چلا گیا اور وہاں سے لکھ کر بھیج دیا نہیں چاہئیے یہ جاب۔ دوبارہ گاؤں آیا تو بہت لعن طعن ہوئی کہ میرٹ پر ملی ہوئی جاب نہیں کی۔ بتایا کہ سکیل سترہ سے کم پر سرکاری نوکر نہیں بنوں گا۔ میری بات کو مذاق سمجھا گیا اور ملی ہوئی جاب کو جائن نہ کرنے پر مجھے ایک دن پچھتانے کا کہا گیا۔ دو سال بعد سکیل سترہ ملا تو سب کو یہ لگا رشوت سے یہ سکیل ملا ہے۔

اپنے گاؤں میں اس سکیل پر بھرتی ہونے والا پہلا لڑکا میں ہی تھا۔ میرے کچھ استاد جو میرے سکیل نمبر کو جائن کرنے پر ناخوش تھے۔ وہ اب پہلے سے زیادہ ناخوش تھے۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

مجھے بظاہر ایک اچھی جاب کا ملنا جہاں کچھ لوگوں کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ وہاں جن کے پاس ایسی جاب نہیں تھی ان کو دکھ بھی بہت تھا کہ اسکی تو تنخواہ بہت زیادہ ہوگی۔ چہرے اور آنکھیں سب کچھ بتا نہیں رہے ہوتے۔ جو خوش تھے انکی اکثریت مجھ سے اوپر تھی یا وہ تھے جنکی میں اولاد تھا۔ میرے دادا دادی تھے۔

ابھی جب جاب چھوڑی تو جو ناراض تھے۔ وہ بہت خوش ہوگئے کہ ہاں اب اس نے انکے لیے ٹھیک اور اپنے لیے غلط فیصلہ کیا ہے۔ اپنی ساری عمر بائیک پر دھول پھانکنے والوں کو کار میں بیٹھا کم ہی اچھا لگتا ہے۔ کیا دیہات اور کیا شہر سبھی سالے شاہ دولے کے چوہے۔ عقل بند، دماغ بند اور نسل در نسل ایک ہی عامیانہ سوچ کو اپنے بچوں میں ٹرانسفر کرکے مر جانے والوں کو کوئی کیسے سمجھا سکتا ہے؟ کہ آپ نہ تو کسی کا رزق کم کر سکتے ہیں نا ہی زیادہ۔

ماہانہ فکس سیلری؟ یہ کیسا بڑا فراڈ اور فریب ہے؟ کہ ہماری ساری منفرد صلاحیتیں اور توانائیاں ہمیشہ کے لیے بک جاتی ہیں۔ جس انسانی چڑیا گھر میں آپ ہر روز جا رہے ہوتے وہاں قید ہر پنچھی آپ کو یہی کہتا سنائی دے گا کہ یہاں بروقت کھانا ملتا ہے پانی ملتا ہے۔ وہاں کسی کام سے آنے والے چڑیا گھر دیکھنے والوں کی مانند ہی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور وہاں ہر روز صرف موجود رہنے کا معاوضہ تمام قیدیوں کو کھانا اور پانی دے کر زندہ رکھتا بس مرنے نہیں دیتا۔

مجھے بہت دیر لگی اس فرسودہ، بکواس اور انتہائی محدود سے گھن چکر کو سمجھنے اور خود کو اس گہرے اور تاریک کنویں سے خود کو نکالنے میں۔ جس میں قابل ترین دماغوں اور با صلاحیت نوجوانوں کو اعلی تعلیم کے بعد نوکری کے نام پر پھینک دیا جاتا ہے۔ سکول میں فیل ہونے والے اگر اپنے اوپر کوئی ڈھنگ کا کام کرکے رزق کے دروازے وسیع کر سکتے ہیں تو کالج یونیورسٹی سے پڑھنے والوں کے قسمت میں کوئی معمولی یا اعلی نوکری کے نام پر آئندہ زندگی میں ملنے والے مواقع کے دروازے بند کیوں؟

یہ تو تھی استادوں کی کہانی۔ جنہوں نے ہماری جنریشن کا بیڑہ غرق کیا۔ اسکے بعد آتے ہیں ہمارے علما اکرام۔ دس پندرہ ہزار ماہوار پر بمشکل گزر بسر کرنے اور مسجد کی پراپرٹی کے کرایے سے جس کی رہائش کے بلز جمع ہوتے ہیں وہ آپ کو نبیوں اور صحابہ کی غربت فاقوں اور تنگدستی کے قصے نہ سنائے تو کیا کرے؟ اسے کوئی امیر کوئی اپنے وقت کا حکمران بادشاہ نبی کیوں یاد آئے؟ کسی نبی کے پیروکاروں میں اسے اپنے اوپر رزق کے دروازے کھولنے والے صحابہ کیوں نظر آئیں گے؟ وہ خود جہاں کھڑا ہے اسے ہر مذہب اور معلوم تاریخ سے وہی سب اچھا لگے گا جو اس پر بیت رہا ہے اور وہ اس کو ہی بار بار بتا کر اپنا اور اپنے جیسوں کا دل پشوری کرتا رہے گا اور یوں ہی نسل در نسل غربت اور محرومیاں آگے ٹریول کرتی رہتی ہیں۔

کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ہماری زبان کے ساتھ وہاں رہتے ہوئے ہماری آزاد سوچ، شعور اور دماغ کو بھی کسی طے شدہ منصوبے کے تحت قومی سطح پر کسی قید میں بند کر دیا گیا ہوا ہے۔ کیا آپ کو نہیں ایسا لگتا؟

Check Also

Kya Greater Israel Ka Mutalba Aur Khwahish Ghalat Hai?

By Hafiz Safwan