میں بھی جانتی ہوں …
" ارے تم تو وہی لگ رہی ہو … آج سے تیس سال پہلے والی، بالکل ویسی ہی!!" اس طرح کا تبصرہ اگر آپ کو خود پر سننے کو ملے تو آپ خوش ہوں گے مگر میں نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے تیس سال پہلے میں اتنی ہی صحتمند ( موٹی کا لفظ استعمال کرتے ہوئے خود پر ترس آتا ہے) تھی، جتنی کہ میں اب ہو گئی ہوں۔ صرف اسی پر بس نہیں، اس کا احساس مجھے ہر روز، کئی "پیاروں "کی طرف سے دلایا جاتا ہے۔ مجھے اس نوعیت کے فقرے گھر میں اور گھر سے باہر سننے کو ملتے ہیں۔
… تمہاری فلاں سہیلی کتنی اسمارٹ ہے اس عمر میں بھی، اس سے طریقہ پوچھو کوئی اسمارٹ ہونے کا۔
… تمہارا دماغ بھی تمہاری طرح ہی موٹا ہے۔
… ارے کیا، تم صرف ایک سموسہ کھاؤ گی، کم از کم حصہ بقدر جثہ تو کھاؤ۔
… تمہارے سوٹ پر بھی میرے سوٹ جتنا کپڑا ہی لگتا ہے یا درزی بے چارے کو ٹینٹ سینے جتنی مشقت کرنا پڑتی ہے؟
… یار تم سے پہلے، تمہارا پیٹ کمرے کے دروازے سے داخل ہوتا ہے۔
… ادھر آ کر بیٹھو اس صوفے پر، وہ نازک سی کرسی ہے، تمہارے وزن کی تاب نہ لا سکے گی۔
… تمہارے خاندان میں باقی سب بھی اتنے ہی موٹے ہیں یا صرف تم ہی اسپیشل پیس ہو؟
… پتلا ہونے کی کوئی دوا ہی کھا لو…
… اتنا اچھا میک اپ کرتی ہوں تم … لیکن کتنا میک اپ لگتا ہوتا ہو گا تمہارے بڑے سے چہرے پر!!
… یہ جو تم نے پہن رکھا ہے اگر یہی لباس کسی دبلی پتلی لڑکی نے پہنا ہوتا تو اسے کتنا اچھا لگتا۔
… ڈائٹنگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے!!
… لائپو سکشن کروا لو تم کہیں سے۔
غرض اس نوعیت کے استقبالیہ جملوں سے لے کر ہر نوعیت کے ہتک آمیز جملے سن کر سوچتی ہوں کہ ہمیں دوسروں کی ذاتیات پر تبصرہ کرنے کاکتنا شوق ہے۔ اگر میں بیس سال قبل کے وقت میں چلی جاؤں تو وہ وقت تھا جب ہر کوئی مجھ سے یہ پوچھتا تھا کہ تم خوش تو ہو نا اپنے گھر میں، تمہیں کھانے کو کھانا نہیں ملتا؟ بچوں کو کمر پر نہ اٹھایا کرو، بے چاروں کو تمہاری ہڈیاں چبھتی ہوں گی۔ آندھی میں باہر نہ نکلا کرو… کہیں ہوا اڑا کر نہ لے جائے، کھانا ٹھیک سے کھایا کرو، سسرالی خاندان کی ناک کٹتی ہے تمہارے ڈھانچے جیسے وجود کو دیکھ کر۔ وہ وقت وہ تھا کہ میں دن میں تین وقت دیسی گھی کے پراٹھے کھا کر بھی ویسی ہی دبلی تھی کہ دبلے پن کے طعنوں سے چھلنی ہوتی رہتی تھی۔ اوپر تلے کے پانچ بچوں کی پیدائش نے بھی میرے وجود پر چربی کی ہلکی سی تہہ تک نہ چڑھائی تھی۔ نہ میں نے اس وقت دبلا ہونے کی کوئی شعوری کوشش کی تھی اور نہ اب اتنا موٹا ہونے کے لیے۔
میں نے یہ جانا ہے کہ دنیا ہمیں کسی حال میں جینے نہیں دیتی۔ اور تو اور موٹے موٹے لوگ بھی بات کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے، شاید وہ گھر سے آئینہ دیکھے بغیر نکل آتے ہیں۔ وزن بڑھانے اور گھٹانے پر ہمارا کتنا اختیار ہے؟ کوئی ایسا ہو گا جو چاہے کہ میرا وزن بڑھ جائے، اتنا کہ صرف دوسروں کو ہی نہیں، مجھے بھی برا لگنا شروع ہو جائے؟ ایک ہی گھر میں، ایک جیسی خوراک کھانے والے کبھی ایک ہی وزن پر ہو سکتے ہیں کیا؟ کوئی بھی انسان تمام عمر ایک ہی جیسا رہ سکتا ہے کیا؟
آپ کو ایک بات بتاؤں… آپ کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں کتنی موٹی ہو، مجھے کیا دوا کھانا چاہیے، کس ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے… روزے، فاقے، Atkins، Keto اور Paleo ڈائٹ کیا ہیں، میں بھی جانتی ہوں کیونکہ میں اسی دنیا میں رہتی ہوں۔ اپنے مسائل کا مجھے بھی ادراک ہے، میں بھی چاہتی ہوں کہ میرا وزن کم ہو اور اس کے لیے میں ہر طرح کے جتن کرتی ہوں۔ لمبی سیر کرتی ہوں، تیراکی پر جاتی ہو ں، مشکل ورزشیں کرتی ہوں، کیلوریز گن گن کر اور تول تول کر کھاتی ہوں، زیادہ کھا لوں تو حلق میں انگلی مار کر الٹی کر دیتی ہوں، نشاستہ دار غذاؤں سے اجتناب کرتی ہوں۔ ان میں سے کچھ بھی اثر نہیں کرتا تو میں پریشان بھی ہوتی ہوں مگر آپ کی مزید جلی سڑی باتیں سن سن کر میں نے ڈیپریشن میں جانا شروع کر دیا ہے۔
میں تو ہمیشہ چاہتی ہوں کہ میرا جس سے معمولی سا بھی تعلق ہے، وہ میری وجہ سے خوش رہے اور میں اس کے لیے کسی تکلیف کا باعث نہ بنوں، کجا یہ کہ میں کسی کو ڈیپریشن میں مبتلا کردوں !! اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا دل دکھانا کتنا بڑا گناہ ہے اور آپ یہ گنا ہ کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچتے کہ اس کا " صلہ" کیا ہے؟؟ آپ کو بھی علم ہے کہ آپ کے ایسے طنزیہ جملے جو براہ راست بغیر کسی لگی لپٹی کے ہوں یا وہ جملے جو آپ میٹھی گولیوں میں لپیٹ لپیٹ کر دوسروں پر پھینکتے ہیں، وہی اگر آپ کو خود سننا پڑیں تو آپ کو کبھی اچھا نہیں لگے گا۔ جو چیز آپ کو اپنے لیے پسند نہیں، اسے دوسروں کے لیے کیوں پسند کرتے ہیں؟ کبھی سوچا کہ کسی موٹے شخص کو موٹاپا کسی ایسی بیماری کے باعث ہو سکتا ہے جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں؟ کسی کے خاندان میں ایسے جین ہو سکتے ہیں جو اس خاندان کے افراد کو ایک خاص عمر کے بعد موٹاپے میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
حقیقت ہے کہ کھائے بغیر کوئی موٹا نہیں ہوتا اور کم کھانے سے وزن میں کمی واقع ہو سکتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر موٹا زیادہ نہیں کھاتا اور نہ ہی ہر زیادہ کھانے والا موٹا ہوتا ہے۔ کوئی شوق سے دبلا یا موٹا نہیں ہوتا، نہ ہی یہ اوصاف ہیں کہ جن کے پیمانوں پر انسانوں کی اچھائی اور برائی کو ناپا تولا جائے، نہ ہی یہ اچھے برے کردار کے اوصاف ہیں اور نہ ہی کسی کے ذہین یا کند ذہن ہونے کے۔ موٹاپا جتنا بھی زیادہ ہو اسے اس نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ اس کے آگے موٹے شخص کی کوئی خوبی ہی نظر نہ آئے۔ ذہانت، خلوص، ہمدردی، خدمت، پیشہ واریت، احترام، مثبت جذبات جیسے اوصاف کسی کو اچھا یا برا بناتے ہیں، اگر یہ سب یا ان میں سے کچھ کسی میں موجود ہیں تو فقط اس کے موٹاپے کو لے کر اس کے جذبات کو مجروح کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
آپ کا مجھ سے کوئی بھی ناتا ہے، اگر آپ میری مدد کر سکتے ہیں، وزن کم کرنے میں میری مثبت معاونت کر سکتے ہیں تو مجھے خوشی ہو گی۔ آپ میرے دوست ہیں" بزرگ، بھائی، کزن، شوہر، بیٹے یا ہمسائے، آپ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ آپ مجھ پر ان حوالوں سے تنقید کریں جن پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں زندگی میں جن جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے گزر کر عمر کے اس حصے میں آئی ہوں، آپ ان سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے۔ آپ کو میری عمومی صحت کا علم ہے اور نہ ہی آپ جانتے ہیں کہ میں کسی ایسی بیماری میں مبتلا تونہیں کہ جس کے باعث میں کوئی دوائیں لیتی ہوں جس طرح کسی کے قد، قامت، رنگ، ساخت، جسمانی کجی ( بہرہ پن یا گونگا پن وغیرہ) نظر کی کمزوری وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو مجھ پر اس نوعیت کے اثرات چھوڑتی ہیں۔ اگر نہیں، تو پھر آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ مجھ پر اس حوالے سے تنقید کریں۔ بالکل اسی طرح کہ جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہیں اور ان کی بنیاد پر کسی کا مضحکہ اڑایا جائے۔
دنیا میں ہر شخص ہر وقت اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہا ہوتا ہے، اس کے مسائل اس کے مسائل ہیں اور انھیں حل کرنے کی جدوجہد ہی زندگی ہے۔ کسی کے لیے کچھ بہتر نہیں کر سکتے تو اس کے مسائل میں اضافہ نہ کریں۔ اپنے کام سے کام رکھیں، مشورہ اس وقت دیں جب کوئی آپ سے مانگے اور کسی کے بارے میں رائے اس وقت دیں جب آپ کو علم ہو کہ آپ کے اور اس کے بیچ اتنی ذہنی ہم آہنگی ہے کہ آپ اسے اور وہ آپ کو سمجھتا ہے۔ اپنی منفی رائے سے دوسروں کے دل دکھائیں اور نہ ان کے حالات میں پیچیدگیاں پیدا کریں۔
( یہ کالم صرف میرے ہی نہیں، دنیا کے سب موٹے لوگوں کے جذبات کا ترجمان ہے)