کوڑا کرکٹ مجھے دے دو!!
کافی پارٹی میں اس وقت سب دبی دبی ہنسی ہنسیں جب عطرت نے پوچھا کہ ہم سب اپنے گھر کے کوڑے کرکٹ کا کیا ڈسپوزل کرتے ہیں۔" ہم تو سنبھال کر رکھ لیتے ہیں، جب اچانک کوئی ضرورت پڑ جائے تو اس میں سے نکال کر استعمال کر لیتے ہیں ! " ایک آواز آئی اور اس پر ہنسی۔
" ہم اسے محفوظ کر لیتے ہیں، سردیوں میں جب گیس نہیں ہوتی تو اس وقت ہم اسے ایندھن کے طور پر جلاتے ہیں ! " ایک اور آواز، مزاح کا رنگ لیے ہوئے اور ہنسی کا ایک اور فوارہ۔
" ہم نا… " اگلی آواز کے آغاز سے ہی ہنسی آ گئی کہ اس کا انداز ہی ایسا تھا، " اسے بیچ کر رقم بچوں کی یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جمع کرتے ہیں !!" اس پر سب کھل کر ہنسیں۔
" مجھے علم ہے کہ تم سب بکواسیات فرما رہی ہو… " عطرت کہاں ادھار رکھنے والی تھی، اس نے بکواسیات کے ساتھ فرمانے کا لفظ استعمال کر کے بے عزتی اور عزت کا وہ امتزاج بنایا تھا کہ ہم سب کی ہنسی چھوٹ گئی، " تم سب لوگ اس کے بعد اپنے گھروں کا کوڑا کرکٹ مجھے دے دیا کرنا… جس کے ہاں کوڑا کرکٹ جمع ہو، وہ مجھے کال کر دے، اگر خود نہ پہنچا سکے تو میں ڈرائیور بھجوا کر منگوا لیا کروں گی!!" اس کے کہنے پر ہم سب حیرت اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگیں کہ اب اس کے ذہن میں کیا کیڑا سمایا ہے۔ ’شاید وہ اس کوڑے کو ری سائیکل کرنے کا پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے!، میں نے سوچا تھا۔ باقی لوگ کیا سوچ رہے تھے، اس کا مجھے علم نہ تھا۔
" کیا کرو گی تم ہم سب کے گھروں کا کوڑا کرکٹ جمع کر کے… کیا تم یہ چیک کرنا چاہتی ہو کہ ہم میں سے سب سے زیادہ گندگی پیدا کرنے والی سہیلی کون سی ہے تمہاری؟ "
" ارے نہیں، مجھے اس کی ضرورت ہے! " عطرت نے برا منائے بغیر کہا۔
" تمہیں کوئی ضرورت ہے تو ہم سے کہو، دوست اور سہیلیاں اور کس مقصد اور وقت کے لیے ہوتے ہیں؟ " کسی ایک نے کہا تھا اور میں بھی دل میں بہت شرمندہ ہوئی کہ ہماری دوست کس حد تک مجبور ہو گئی ہے کہ ہم سے ہمارے گھروں کا کوڑا کرکٹ مانگ رہی ہے اور شاید اسے بیچ کر اپنی ضرورتیں پوری کرے گی۔
" اصل میں مجھے کچھ لوگوں کے ہاں یہ کوڑا بھجوانا ہوتا ہے… " عطرت کا پٹھان ہونا ایسے وقت میں بہت زچ کرتا ہے جب وہ چھوٹی سی بات کو واضح کرنے کی بجائے سوال جواب کے سیشن میں ایک ایک کر کے اور غیر واضح جوابات کے ساتھ بتاتی ہے۔ ( پٹھانوں سے معذرت کے ساتھ )
" کون لوگ ہیں جن سے تمہیں اچانک اتنی دشمنی ہو گئی ہے کہ تم نے ان کے ہاں کوڑا کرکٹ بھجوانے کا سوچاہے؟ " میں نے اس سے مزید معلومات نکلوانے کے لیے سوال کیا۔
" تم لوگوں سے میں کچھ عرصے سے کہہ رہی تھی اور مدد بھی مانگ رہی تھی کہ میرا دل کرتا ہے کہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کروں !!" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
" لوگوں کے گھروں میں کوڑا کرکٹ بھیجنے سے ان کی کون سی فلاح و بہبود ہوتی ہے؟ " کسی نے سوال کیا۔
" عطرت … تم عطرت ہی رہنا!! "کسی نے اس پر طنز کیا تھا، " بندہ کچھ بدل ہی جاتا ہے یار، ساری عمر اسلام آباد میں گزار کر بھی تم ویسی کی ویسی ہی ہو! "
" اسلام آباد میں رہنے سے کیا ہو جاتا ہے، بندہ کیا کوئی عالم فاضل ہو جاتا ہے، اپنا اصل بھول جاتا ہے، کیا کسی کے لیے فلاح و بہبود کا کام کرنے کے لیے اسلام آباد میں نہیں رہنا چاہیے؟ " اس نے یکے بعد دیگرے دکھی انداز میں سوال کیے۔
" ارے نہیں، میں تو یونہی مذاق کر رہی تھی، تم سنجیدہ ہو گئیں! " اس کو دلاسہ دیا گیا۔
" چلو اب ذرا کھل کر اور تفصیل سے خود ہی بتا دو کہ تمہارے ذہن میں کیا فلاحی منصوبہ ہے اور کوڑا کرکٹ بیچ کر تم کتنی رقم کما لو گی کہ فلاح کا وہ منصوبہ چل سکے؟ " اس سے طویل سوال کیا گیا تا کہ ہمارے سوال اور جواب کے سیشن کی بجائے وہ خود ہی سب کچھ بتا دے۔
" منصوبہ ہے ان بچوں کو تعلیم دینے کا کہ جن کے والدین افورڈ نہیں کر سکتے اور اپنے چار پانچ سال کی عمر کے بچوں کو بجائے اسکولوں میں بھیجنے کے، انھیں سویرے سویرے بڑے بڑے تھیلے دے کر گھروں سے نکال دیتے ہیں کہ وہ دن بھر کوڑے کرکٹ میں سے کام کی چیزیں چن چن کر لائیں اور انھیں بیچ کر وہ کچھ نہ کچھ کما سکیں اور ان کے گھر کا چولہا جل سکے۔ یہ لوگ اپنے بچوں کے لیے سرکاری اسکول کی فیس تک ادا نہیں کر سکتے، جب میں نے انھیں پیش کش کی کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں اور میں انھیں فیس، یونیفارم اور کتابیں لے کر دوں گی تو انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ ان بچوں کی" دن بھر کی کمائی" سے تو ان کے گھروں کا چولہا جلتا ہے، انھیں اسکول پڑھنے کے لیے بھیج دیں گے توپیٹ کا ایندھن کہاں سے آئے گا!! "
" اوہو!! " کسی نے تاسف کا اظہار کیا۔
" ہم سب با حیثیت ہیں، تمہارے ساتھ اس کار عظیم میں حصہ ڈال سکتے ہیں، ان بچوں کی تعلیم کا خرچہ بھی مل کر اٹھا سکتے ہیں اور ان کے گھروں کے مردوں اور عورتوں کے لیے کسی نہ کسی ایسے کام کا بندوبست کر سکتے ہیں جس سے وہ اپنے گھروں کا چولہا جلا سکیں!"
" وہ سب لوگ بھی کوڑا ہی اٹھاتے ہیں … اس کے علاوہ انھیں کوئی اور کام آتا ہی نہیں اس لیے وہ کچھ اور نہیں کریں گے! " عطرت نے بتایا، " میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ کوئی اور کام کرلیں مگر انھوں نے کہا کہ انھیں اور کچھ کام نہیں آتا! "
" تو اب تم کوڑا کیوں اکٹھا کر رہی ہو، اس سے کیا حاصل ہو گا تمہیں؟ " کسی نے سوال کیا۔
"میں نے بچوں سے بات کی ہے، وہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ان کے گھر والے ہیں، وہ انھیں کبھی بھی میرے پاس نہیں بھیجیں گے، تب میں نے سوچا کہ اگر بچے چوری چھپے میرے پاس پڑھنے کے لیے آ جائیں۔ وہ آئیں تو میں انھیں اپنی ساتھی مددگاروں کے ساتھ مل کر یونیفارم پہنا کر دن کو پڑھاؤں اور شام کو وہ اپنے وہی کپڑے دوبارہ پہن لیں، جو کہ وہ گھروں سے پہن کر آتے ہیں اور تم لوگوں سے جمع کیے گئے کوڑے میں سے تھیلے بھر کر کوڑا اپنے گھروں میں لے جائیں کہ گھر والوں کی بھی تسلی ہوکہ بچے "کام " کر کے لوٹے ہیں!! " اس نے اپنے سارے منصوبے کی وضاحت کی۔
"ہمارے گھروں میں اتنا کوڑا کہاں ہوتا ہے عطرت کہ ان کے اس کوڑے کے برابر ہو سکے، جس میں سے وہ دن بھر چنائی کرتے ہیں … اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم ان کے گھر کے مردوں اور عورتوں کو کوئی ہنر سکھاؤ، ان کے لیے تربیتی کلاسیں کرو اور انھیں اس قابل کر دو کہ لوگوں کے گھروں میں، دفاتر میں یا دکانوں میں کام کرلیں، ا س کے لیے ان کے راستے میں تعلیم یافتہ ہونے کی شرط بھی نہ ہو گی!"
کسی نے عطرت کو اپنی طرف سے بہتر مشورہ د یا تھا۔
" ان لوگوں کو تربیت دینا بلکہ اس کے لیے قائل بھی کر لینا زیادہ مشکل کا م ہے " اس نے بے بسی سے کہا۔
" ہم سب مل کر تمہارے ساتھ ان کی بستی میں جا کر ان سے بات کریں گے، بلکہ ہم انھیں اپنے گھروں میں تربیتی سیشن بھی دے سکتے ہیں !! " میں نے پیش کش کی، " صرف یہی نہیں، ہم انھیں سلائی کڑھائی اور بنائی جیسے ہنر سکھا سکتے ہیں "
" فی الحال تم لوگوں کو اگر میری مدد کرنا ہے تو وہی کرو جو کہ میں نے کہا ہے!! " عطرت اپنے نقطہء نظر سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہ تھی، اس نے خود ہی تھوڑی دیر پہلے کہا تھا اور صحیح کہا تھا، " اسلام آباد میں رہنے سے کیا ہو جاتا ہے، بندہ کیا کوئی عالم فاضل ہو جاتا ہے، اپنا اصل بھول جاتا ہے؟"