دل کا کعبہ
حال ہی میں جمعہ کی نماز سری نگر میں کئی مقامات پر ادا نہ ہوسکی، وجہ ہم سب جانتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو اندازہ ہے کہ اگر وہ ایک اچھے مذہبی سیوک کے طور پر کچھ کرسکتے ہیں تو کر گزریں کیونکہ آیندہ مستقبل میں انھیں حالات یا خود ان کی ڈھلتی عمر موقع نہ دے۔
دنیا جانتی ہے کہ نریندر مودی کا تعلق پہلے آر ایس ایس سے تھا اور حال میں بھی وہ اس کے اصول و قوانین پر عمل پیرا ہیں جن کا مقصد پورے بھارت میں صرف ایک قومیت ہندو کا قبضہ ہو چاہے اس کے لیے انھیں دوسری اقلیتوں کو نیست و نابود کردینا ہو یا انھیں زبردستی ہندو بنا دینا ہو، اس مقصد کو جو جوانی سے ہی انھوں نے پہلی سیڑھی چڑھتے تیار کر لیا تھا اب اس کے عمل کا وقت ہے۔
پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ حالیہ بھارتی سرکار کشمیر کے مسئلے کو یوں ہی لٹکا کر رکھے گی جیسے گزشتہ حکومتوں نے کیا لیکن مودی نے اس کے بر خلاف یعنی بہت سے سیاسی پنڈتوں کی توقعات کے برعکس کشمیرکی شناخت کو بھارت میں ضم کر لیا یہ آسان نہ تھا لیکن جنونیت نے انھیں اپنے تئیں اس شاندار اقدام کے لیے سخت فیصلہ کرنے پر راضی کیا، دوسرا اہم اور حیرت ناک فیصلہ بابری مسجد سے متعلق تھا، جس کے لیے 1992ء سے کوششیں جاری تھیں لوگوں کو اس حالیہ فیصلے پر صدمہ ضرور ہے لیکن وہ خوفزدہ ہیں۔
اس خوفزدہ گروپ میں وہ مسلمان گروپ شامل ہیں جو یہ جان چکے ہیں کہ یہ رکن، سیوک اپنے گجرات کی وزارت میں جو قتل عام کرا چکا تھا 90ء کے عشرے کا وہ مسلمانوں کا بد ترین قتل عام تھا لیکن شاید قدرت اب بھی بھارت کے یا دنیائے اسلام کے مسلمانوں کی آزمائش لے رہی ہے، نریندر مودی کے حالیہ دور حکومت میں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر کے ہولناک مذاق کے بعد جلد ہی دوسرا حملہ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ مودی کو اس بات کی مطلق پرواہ نہیں ہے کہ وہاں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمان اس کے لیے کیا سوچتے ہیں۔ اس لیے کہ اسے اپنا پہلا سبق جو اس نے آر ایس ایس جوائن کرتے ہوئے پڑھا تھا خوب اچھی طرح سے یاد ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اس انتہا پسند نے اپنے مقصد کے لیے اپنی ذاتی زندگی کو ایک کنارے کر دیا تھا کیونکہ اس طرح وہ اپنے تئیں مذہبی اعتبار سے اونچے درجات حاصل کرسکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی نے اس دور حکومت میں ان دو اہم مقاصد کو مکمل کرنے کے لیے ایسے ٹائم فریم کا انتخاب کیا جب لوگ دوسرے مسائل یا الجھنوں میں گرفتار تھے یعنی اپنے اپنے میں لگے تھے جس کا انھوں نے پہلے ہی تعین کر رکھا تھا کیونکہ ان کی حکومت کا وقت ختم ہونے میں ابھی چند برس باقی ہیں جن میں انھیں اپنے کارناموں کو اس حد تک توانا کر دینا ہے کہ بعد میں آنے والی سرکار اس سے مستفید ہوتی رہے کیونکہ ان کی مانند کوئی دوسرا سیاسی لیڈر نہیں ہو سکتا جو مذہبی جنونیت میں اس قدر آگے نکلا ہوا ہو۔
پاکستان میں سکھوں کے لیے کوریڈور کھلنے سے انھیں بہت اذیت پہنچی تھی اور وہاں سے صدا بھی ابھری تھی کہ ماضی میں اس کوریڈور کے ذریعے ایک اہم شخصیت نے پاکستان سے بھارت دہشتگرد بھیجنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ اسی لیے ان کا شک گوپال چاؤلہ پر بھی ہے جو خالصتان فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں، انھیں اچھی طرح علم ہے کہ خالصتان کا ایشو بھی اسی طرح سلگ رہا ہے جیسے مسئلہ کشمیر، لیکن اپنی جنونیت میں زک پہنچانے کا جو سرور انھیں اہل مسلم کو پہنچا کر ملتا ہے جو انھیں اتنے بڑے مسائل کو جانتے ہوئے بھی کبوتر کی مانند آنکھ بند رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
پاکستان نے سکھوں کے لیے کوریڈور کھول کر ایک قدم بڑھایا تھا لیکن اسی دوران بابری مسجد کے حیرت انگیز فیصلے نے دلوں کو مضمحل کر دیا، لیکن بھارت میں بظاہر مسلمانوں کو پرسکون دکھایا جا رہا ہے کہ انھیں اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو پھر 1992ء سے شروع ہونے والی اس جنگ کو کس کھاتے میں ڈال دیا جائے جو مسلمانوں اور جنونی ہندوؤں کے درمیان تھی جس نے کئی جانوں کو نگل لیا۔ بابری مسجد کی جگہ مندر قائم کرنے کا فیصلہ اور مسجد کے لیے مقررہ زمین کہیں اور مختص کرنے کا قدم نیا نہ تھا، یہ پہلے سے ہی پلان شدہ تھا کیونکہ جس طرح زور و شور سے اس کی تعمیر کے لیے راجستھان میں تیاریاں ہو رہی ہیں وہ کئی مہینوں پر محیط ہیں۔ ڈرے، سہمے، خوفزدہ لوگ وہی کہیں گے جو ڈرانے والے کہلوانا چاہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ بابری مسجد کا فیصلہ اب ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے۔ ہمیشہ کا لفظ ویسے ہی معنی خیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو بابری مسجد کا وجود کیسے آتا۔ برسوں ویران رہنے والی یہ مسجد اتنی اہم کیسے ہو جاتی، کسی بزرگ نے خوب کہا ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں کعبہ ہوتا ہے بس اسے ڈھونڈنے کی دیر ہوتی ہے۔
کسی بوڑھے نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ تو پہلے ہی حل ہوجاتا، پوچھا کیسے؟
جواب ملا 1947ء میں۔ لیکن 1947ء میں تو پاکستان آزاد ہوا تھا؟ ہاں تو ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان چودہ اگست 1947ء کو آزاد ہوا تھا، پر جب بھارت نے 1947ء میں سری نگر پر اپنی فوج کی ایک بٹالین اتاری تھی تو سمجھ آگیا تھا کہ زور زبردستی پر اترے ہیں یہ ہندوستان پر۔ ہماری طرف سے کیا ہوا قائد اعظم نے حکم دیا کہ فوراً کشمیر میں پاکستانی فوجیں بھیج دی جائیں، ایک بریگیڈ جموں کے راستے اور ایک مظفر آباد کے راستے لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ قائد اعظم کے حکم کو انگریزکمانڈر انچیف جنرل گریسی نے حیلے بہانوں سے ٹال دیا۔ انگریز تھا نا، اسے کیا غرض تھی مظلوم کشمیریوں سے۔ کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔
اس سے ناگالینڈ میں بھی سراسیمگی پھیل گئی ہے علیحدگی پسندی اب اور پنپ رہی ہے کیا نریندر مودی کا یہ جنون بھارت کو علیحدگی کی راہ پر نہیں لے جا رہا۔ کشمیر کو علیحدہ کرو۔۔۔۔۔ ناگالینڈ کی شناخت الگ کرو۔۔۔۔ خالصتان سکھوں کا حق ہے، ہمیں ہمارا حق دو۔ صرف یہی نہیں اور بھی درد ہیں زمانے میں محبت کے لیے۔ پر جس درد کو وزیر اعظم ہندستان اپنے اندر پال رہے ہیں وہ اس ہندوستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو اپنے بام عروج پر جا کر بڑے زور سے اسی رفتار سے پلٹتا ہے اس رفتار کی زد میں کون کب اور کہاں کہاں سے آتا ہے خدا جانے۔
نریندر مودی کو ان کی سوچ سے کوئی الگ نہیں کر رہا، ان کے اردگرد سب ان کی پیٹھ تھپتھا رہے ہیں۔ اس ستائش پسندی کی انتہا کہاں جا کر ختم ہوگی اور کیا رنگ نظر آتے ہیں، سازشیں کیا گل کھلاتی ہیں لیکن ہمیں ہر حال میں اچھی سوچ رکھنی ہے اور اپنا قبلہ درست کرنا ہے کہ کب کس کو اپنے دل کا کعبہ نظر آ جائے۔