کورونا کی صورتحال
چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے کورونا وائرس نے اب تک دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے، یورپ سے لے کر ایشیا تک میں اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ خطرناک وائرس بظاہر نزلہ، کھانسی سے شروع ہوتا ہے لیکن دو ہفتے کے دورانیے میں اسے انسانی جسم میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے یوں یہ انسانی پھیپھڑوں کو جیسے گلا کر رکھ دیتا ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے یہاں کورونا وائرس جیسی مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے شاندار اقدامات کرنا خاصا مہنگا ہے لیکن انفرادی طور پر ہم سب اس سے بچاؤ کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں سب کچھ حکومت پر ڈال کر ہم اپنے لیے اور اپنی فیملی کے لیے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان کا ایک ویڈیو پیغام دیکھا جس میں انھوں نے لوگوں کو تافتان سے آنے والے زائرین کو علیحدہ مقام پر حفاظتی انتظامات کے تحت رکھنے اور وجوہات کے بارے میں بتایا۔
یہ درست ہے کہ یہ وائرس جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو چھونے، میل ملاپ، کھانسنے، تھوکنے اور ہوا سے منتقل ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جو کھانس رہا ہے جسے نزلہ، زکام و بخار ہے اسے کورونا وائرس نہیں ہے لیکن احتیاط ضروری ہے، اس امرکے لیے بلوچستان میں سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کیے گئے اور بارڈر پر پابندی لگا دی گئی تھی، کون اس بیماری سے متاثر ہے اس کی شناخت کا عمل بھی اس قدر آسان اور سستا نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم ایسے کھانے پینے کی اشیا سے پرہیزکریں جن سے ٹھنڈک پیدا ہو مثلاً ٹھنڈے مشروبات، آئس کریم اور بچوں کے کھانے پینے کی چاکلیٹس و ٹافیاں وغیرہ جو گلے میں خراش بھی پیدا کردیتی ہیں اور یہ خراش پھر نزلہ زکام کا باعث بن جاتا ہے۔
پچھلے مہینے یعنی فروری میں ووہان میں کورونا نے سر ابھارا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ وائرل بیماری نے پوری دنیا کو اس حد تک متاثر کر دیا کہ آج تک اٹلی میں ایک ہی دن میں ڈھائی سو افراد اس بیماری کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ذرا سوچیے کہ اٹلی جیسا ترقی یافتہ ملک جب اس بیماری سے بھر پور مقابلہ نہ کرسکا تو پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کیا کچھ کرسکتا ہے۔
ہم بحیثیت مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور اسے کوئی ٹال نہیں سکتا کیونکہ جس نے زندگی عطا کی ہے وہ ہی اس کو ختم کرنے کا مالک ہے، پھر بھی سوشل میڈیا پر چلنے والے اس ویڈیو کو دیکھ کر روح جھنجھلا جاتی ہے جس میں چین میں ایک خاتون لفٹ میں سفر کرتے انتہائی جاہلانہ انداز میں لفٹ کے بٹنوں پر تھوکتی اور ٹشو پیپر کو آلودہ کرتی نظر آتی ہے صرف یہی نہیں بلکہ وہ ایک شخص جو لفٹ میں سوار ہوتا ہے پیچھے سے تھوکتی ہے تاکہ اس کے وائرس زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آلودہ کریں۔ اس خاتون کے اس احمقانہ عمل پر سیکیورٹی گارڈز نے اسے دھر لیا کیا ہم بھی ایسے بے عمل ہیں جو اپنے زہر سے دوسرے انسانوں کو آلودہ کر دیں تاکہ وہ بھی جلدی سے مر جائیں؟
شکر الحمد للہ ہم مسلمان ہیں کورونا وائرس اپنی مرضی سے ٹہلتا ہوا نہیں آیا یا یہ کسی کی شرارت ہے جیساکہ یہ بھی سنا گیا ہے کہ امریکا نے چین کی معیشت کو گرانے کے لیے یہ وائرس چھوڑا۔ بہرحال جن کی موت اس کے ذریعے ہونا مقصود تھی وہ ہوئی اور اس کے پیچھے کیا حقائق ہیں یہ ہمیں آنے والے وقتوں میں پتہ چلیں گے، لیکن اس وائرس سے حفاظتی تدابیر کے لیے اگر حکومت کی جانب سے اقدامات کیے جا رہے ہیں یا کیے گئے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے دوسرے بہن بھائیوں کو، پڑوسیوں یا عزیز و اقارب کو مصیبت میں ڈال کر خوشی محسوس کرسکتے ہیں کیا ہمیں ہمارا مذہب یہ سکھاتا ہے ہرگز نہیں۔ اس عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے ہمیں سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کے دکھ درد پر ہنسی یا طنز کے تیر برسانے کے بجائے ان کے حق میں دعا اور اپنی خطاؤں کی معافی مانگنی چاہیے۔
اٹلی بند ہوچکا ہے کیونکہ وہاں کورونا وائرس نے قیامت برپا کردی ہے، ٹھنڈے موسم کی وجہ سے نزلہ زکام ویسے بھی بزرگ شہریوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ اس بیماری کے متاثرین نے اپنی علامات بھی ظاہر نہیں کیں یعنی نزلہ، کھانسی اور بخار کے بیماروں کو آئسولیشن وارڈز میں منتقل کیا جاسکتا ہے لیکن وہ مریض جن میں اس بیماری کی یہ عام علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں لیکن اس کے نتائج موت کی صورت میں ظاہر ہوں گے زیادہ تشویشناک ہے۔
ذرا غورکیجیے کہ پاکستان میں سردیوں کا دورانیہ پچھلے چند سال کے مقابلے میں بڑھ کر مارچ تک پھیل گیا اور اسی موسم میں کورونا کا حملہ کیا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا کہ یہ کسی کی سوچی سمجھی سازش نہیں بلکہ قدرت کی جانب سے عذاب ہے۔ آخر ہمارے یہاں ایسا کیا ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا؟
Covid 19 سے بچاؤ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں کیا ہم ہر وقت گھر اور دفاتر میں ماسک پہن کر رہیں ہاتھوں کو دس دس منٹ کے وقفے سے صابن سے دھوتے رہیں اور اس وائرس کو موت کا خوف بناکر اپنے ذہنوں پر سوار کرلیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ روح کی صفائی کو بھی یقینی بنالیں جو منفی جذبات اور حرکات کرتے آئے ہیں، ان سے گریز کریں تو روح میں خود بخود سکون محسوس کریں گے یہ اس بیماری کے خلاف ابتدائی عملیات میں سے ایک ہے وٹامن سی کا استعمال کریں تاکہ ہمارے جسم میں نزلہ زکام سے لڑنے کے لیے توانائی پیدا ہو اور ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہو۔
بیجنگ ملٹری اسپتال کے سی ای او پروفیسر چین ہوان کا کہنا ہے کہ " ایک گلاس گرم پانی میں کٹے ہوئے لیموں کی قاشیں آپ کی زندگی محفوظ رکھ سکتی ہیں۔"
ایک گلاس نیم گرم پانی میں کٹے ہوئے لیموں کے ایک ٹکڑے کو نچوڑ کر روزانہ پینے سے ہم بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور لیموں میں شامل قدرتی ایسڈ ہمارے جسم میں موجود فاسد چکنائیوں کو پگھلانے میں کام آتا ہے بلکہ اس طرح وٹامن سی حاصل ہوتا ہے۔ یقینا آپ نے بہت سے لوگوں کو دبلا ہونے کے نظریے سے پانی میں لیموں نچوڑ کر پیتے ضرور دیکھا ہوگا لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام اور بچاؤ کی حفاظتی تراکیب میں سے یہ خاصا مفید عمل ہے۔
آج چین کا آسمان نیلا، شفاف صاف ستھرا ہے کیونکہ دھواں اگلتی چمنیاں بے ہنگم ٹریفک کا شور اور دھواں، فیکٹریوں میں جلتے برنرز، مصنوعی چمکتی مادی زندگی کا ہنگامہ کورونا وائرس کے زور زبردستی سے تھم گئے۔ ترقی کا جوش انسانیت کو پاتال کی گہرائیوں میں لے اترا۔ ترقی آسمانوں کو چھوکر بھی فنا ہو جاتی ہے جب دلوں سے خدا کا خوف مٹ جاتا ہے۔ یہ بات صرف سمجھنے کی ہے خدا ہم سب کو نیک ہدایت دے۔ (آمین۔ )