2020ایک نئے عزم کے ساتھ
پاکستان میں کئی حوالوں سے بیرونی ہاتھ کا ذکر با رہا سنا گیا ہے۔ یہ ہمارے یہاں استعمال ہونے والا ایک عام سا لفظ تھا، جس کا مفہوم دراصل کچھ نہ سمجھ میں آنے والے عناصر سے بھی لیا جا سکتا ہے لیکن اس بیرونی ہاتھ کا تذکرہ اب کچھ کم ہو گیا ہے کہ ہم اب اس تعریف سے بور ہو چکے ہیں اور ہمارے اپنے اندر اس قدر رنگ برنگے ہاتھ دستیاب ہیں کہ مارکیٹ اس ورائٹی سے بھری پڑی ہے۔
سال 2019ء بھی گزر ہی گیا، مہنگائی کے سیلاب سے گزرتا، لڑکھڑاتا، کپکپاتا، کچھ پریشان، مفلوک الحال 2019ء اپنے اندر بہت سے واقعات لے کر رخصت ہوا جس میں سب سے اہم کشمیرکی مخصوص شناخت کو ختم کرنے اور بھارت میں زبردستی سفاکی سے اپنے اندر ضم کر لینے کا سانحہ شامل ہے۔
اس کے ساتھ ہی مودی سرکارکا CAA کا قانون جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبورکر دیا کہ ان کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ پورے سال کو چند سطروں میں رقم کر دینے میں شاید آسانی نہ ہو، لیکن جس دکھ اورکرب سے پوری قوم گزری ہے وہ ہر گز بھی بھلا دینے والا اور معاف کر دینے والا نہیں، بڑے بڑے حادثات جن پر گزرے، اس پر چند لائنیں گھسیٹ کر لکھ دینے میں یا پڑھ لینے سے اس اذیت کو محسوس کرنا بہت مشکل ہے۔
پھر بھی ہم اس برس بھی اپنی بچیوں، بہنوں اور بیٹیوں کو وہ تحفظ دینے میں ناکام رہے جس کا فرض ہم سب پر عائد ہوتا ہے سال بھر کو سمیٹنے کی کوششیں بھی کریں تو بھی کم ہے کہ ہر گزرا ہوا دن اپنے اندر ایک کشمکش، اضطراب اور ٹینشن سے لپٹا نظر آتا ہے، بحیثیت ایک قوم بھی ہم اپنے خطے میں دوسروں سے پیچھے نظر آ رہے ہیں کہ ہم نے ایک قوم بننے کی کوشش شاید ترک کر دی۔
ذرا نظر دوڑائیے تو دیکھیے سنگاپور کو جو بظاہر ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، اس کی آبادی پچپن لاکھ کے نزدیک ہے، لیکن اس چھوٹے سے ملک نے دنیا بھر میں جس طرح اپنا مقام بنایا کہ آج اس کے پاسپورٹ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
1963ء میں برطانیہ سے غلامی کی زنجیر اتارنے کے بعد سنگا پور، ملائیشیا کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نظر آیا لیکن دو برس بعد ہی سنگاپور نے ملائیشیا سے علیحدگی اختیار کر لی، یوں 1965ء میں سنگا پور نے اپنی شناخت قائم کی اور تیزی سے اس نے ترقی کا سفر طے کیا اور ایشین ٹائیگر کہلایا۔ 2019ء میں سنگاپور کے شہریوں کو دنیا کے 189 ممالک میں ویزہ فری کی سہولت فراہم ہو گئی اس طرح دنیا بھر میں سنگاپور کا پاسپورٹ ایک ممتاز حیثیت حاصل کر چکا ہے اور اس کے شہری دنیا بھر کے پسندیدہ بن چکے ہیں، سنگاپور ہمارے ایشیا میں ہی بستا ہے۔
ہمارے ایشیا میں ہی دیکھیے، دوسرے ممالک پاکستان کے مقابلے میں کہاں جا پہنچے ہیں، زیادہ دور نہیں بنگلہ دیش کو ہی دیکھیے جو 1971ء میں ہم سے الگ ہوا، اس وقت بنگلہ دیش ایک غریب، مفلوک الحال ملک تھا جس کی 65 ملین آبادی تھی، وسائل تنگ مسائل زیادہ تھے لیکن اب بنگلہ دیش ہمارے مقابلے میں خاصا آگے نظر آ رہا ہے۔ 2018ء میں اس کی معاشی ترقی 7.8 فیصد تھی جب کہ پاکستان کی 5.8 فیصد تھی۔ یہ حیرت انگیز فرق آخر کیسے پیدا ہوا جب کہ پاکستان دنیا بھر میں کاٹن کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی صرف ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے برابر ہماری پوری ایکسپورٹ ہے یہ سچ ہے کہ ہم اس ملک سے جو کبھی ہمارا ہی بازو تھا کئی گنا پیچھے ہیں۔ ترقی کے سفر میں ہم بنگلہ دیش سے کیسے نیچے آ گئے جب کہ ہمارے پاس وسائل بھی ہیں اور ہم کسی طرح بھی کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں لیکن ہماری انفرادیت ہمیں دھکیل کر پیچھے کر دیتی ہے ہماری سرکار اور عوام کے درمیان فاصلے ہمارے مسائل کو الجھاتی رہی ہے، یہ آج کا کلیہ نہیں ہے شاید 1947ء کے بعد سے ہی یہ فاصلے پاکستان کو ترقی کی سیڑھی پر چڑھنے سے روکتے رہے ہیں یہاں تک کہ اس سیڑھی پر ہی ترقی کی انفرادی کوشش نے ہمارے ایک بازو کو ہم سے الگ کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش کے بعد ساتھ ہی بھارت پر نظر ڈالیے تو یہاں بھی یہی حال ہے کہ بھارتی حکومت نے " باہر جاؤ خوب کما کر دیش میں لاؤ" والی پالیسی کچھ اس طرح اختیار کی کہ دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں معاشی ترقی کے ساتھ ہنرمندوں کی کھپت ہے، بھارت نے ملک سے باہر جانے والوں کی ہمت افزائی کی اور اس طرح ان کی ترقی کرنے کے عوامل میں یہ لوگ بھی سرفہرست آ گئے۔ آج بھارت کا اپنا گوگل کام کر رہا ہے جو اس کے آگے بڑھ کر کام کرنے کی مثال بھی ہے، یہ بھی اہم ہے کہ وہاں بھی کرپشن کی فضا قائم ہے لیکن پھر بھی ماضی کے مقابلے میں بھارت میں آگے کی جانب سفر برقرار رکھا، مودی سرکار کی متعصبانہ سوچ اور پالیسیوں نے ان کے اسٹیٹ بینک کی بنیادوں میں ارتعاش ضرور پیدا کیا ہے لیکن پھر بھی مجموعی طور پر ان کی صورتحال مستحکم ہے۔
اسی طرح سے ایشیا کے دوسرے ممالک پر نظر ڈالیں تو ویت نام کی مثال ابھرکر سامنے آتی ہے ایک طویل عرصے جنگی مزاحمتوں کا شکار یہ ملک شاید اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ ہو سکتا تھا لیکن آج ہمیں مارکیٹ میں ویت نام کی اشیا بھی نظر آتی ہیں جب کہ کوریا، جاپان، چین تو پہلے ہی اپنا مقام رکھتے ہیں۔
2019ء کے سفر کے بعد پاکستان اب 72 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ اس کی یہ سالگرہ تو چودہ اگست کو ہی بندھے گی لیکن اس گرہ سے پہلے 2020ء کی شروعات میں ہی ہمیں یہ سوچنا ہے کہ پاکستان کو بحیثیت ایک معزز، طاقتور، خود مختار اور مستحکم ملک بنانے کے لیے کن کن اہم امور پر توجہ دینی ہے اور صرف توجہ ہی نہیں دینی بلکہ عمل کے ذریعے اسے موثر بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل، خلفشار، کشیدگی اور تناؤ کا بہانہ بنا کر پیچھے رہنے کا رونا کب تک روتے رہیں گے کہ 2020ء ایک نئی دہائی ہماری ترقی کی منتظر ہے۔