صدر بائیڈن کے راج میں
انجام کار وہی ہوا جو نوشتہ دیوار تھا۔ امریکا کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کوکامیابی حاصل ہوئی اور ری پبلکن پارٹی کو شکست ہوئی۔ سال 2021 جوبائیڈن کے حق میں سعد اور ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نحس ثابت ہوا۔ ٹرمپ کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ رسوائی بھی اس کا مقدر بنی۔ ٹرمپ امریکا کی تاریخ کا واحد اور پہلا صدر ہے جسے دو مرتبہ مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال جوبائیڈن کی قسمت نے یاوری کی اور قرعہ فال انھی کے نام نکلا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ کامیابی مردِ میدان کو ہی حاصل ہوا کرتی ہے۔ امریکی جمہوری نظام کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہاں ایک معمولی سے اخبار فروش کا بیٹا بھی کرسی صدارت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ جس کا ہمارے جیسے ملک میں تصور بھی محال ہے۔ ہمارے یہاں ریاست اور سیاست پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طالع آزماؤں کی اجارہ داری قائم رہی ہے، کسی غریب کا بیٹا حکمرانی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
صدر ٹرمپ اور صدر بائیڈن میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک شعلہ مزاج ہے تو دوسرا شبنمی۔ ایک آتش گیر ہے تو دوسرا انتہائی گمبھیر۔ ایک جو منہ میں آیا وہی بولتا ہے جب کہ دوسرا بولنے سے پہلے ہر لفظ تولتا ہے۔
ایک بڑا اناڑی ہے تو دوسرا منجھا ہوا کھلاڑی۔ ایک کی زبان میں ترشی ہے تو دوسرے کی زبان میں شیرینی۔ ایک فسادی ہے تو دوسرا صلح پسند۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی تجربہ صفر تھا جب کہ جوبائیڈن ایک آزمودہ کار سیاستدان ہیں۔ جن کے بارے میں بے دھڑک کہا جا سکتا ہے کہ "عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاہی میں "۔ وہ 78 سال کے ایک عمر رسیدہ سیاستدان ہیں۔ ان کے بال طویل تجربہ کی دھوپ میں سفید ہو چکے ہیں، لیکن ان کے حوصلے بالکل جوان ہیں۔ وہ دھڑلے سے کہہ سکتے ہیں کہ:
ابھی تو میں جوان ہوں
سابق صدر ٹرمپ جاتے جاتے ان کے لیے مسائل کا ایک انبار چھوڑکرگئے ہیں، جن کا حل تلاش کرنے کے لیے بائیڈن کو روزوشب سخت محنت درکار ہوگی۔ اس لیے کرسی صدارت ان کے لیے پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں بھری سیج ہے۔ یہ مسائل اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ان کی نوعیت سیاسی بھی ہے اور معاشی بھی۔ سب سے بڑا مسئلہ حالات کی بحالی کا ہے، کیونکہ سابق صدر امریکا کی چولیں ہلا کر گئے ہیں۔
ان کے لگائے ہوئے کاری زخموں کو مندمل کرنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ ٹرمپ کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ پوری امریکی قوم بھگت رہی ہے۔ انھوں نے امریکیوں کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے قومی یکجہتی کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل کردی ہے، جسے پاٹنا آسان کام نہیں۔ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور حکمرانی میں امریکا کو انتشار، ذلت اور رسوائی کے سوا اورکچھ نہیں دیا۔ ان کا یہ دور انتشار سے عبارت ہے۔ کالے اورگورے کے فرق کو مٹانا کار دشوار ہے۔ بقول غالب:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
جوبائیڈن کو قومی اتحاد کی بحالی کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ امریکا کا دوسرا بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔ کووڈ19 نے امریکی معیشت کی جڑیں اکھاڑ دی ہیں، جس میں صدر ٹرمپ کی غلط پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی وجہ سے کورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے درست حکمت عملی اختیار نہ کی جاسکی، جس کے نتیجے میں پوری قوم انتشارکا شکار ہوگئی اورکاروبار زندگی بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ امریکی معیشت کا پہیہ جام ہو گیا، بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا اور غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے۔ اس صورتحال نے دیگر معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیا جس کے نتیجے میں امریکی معاشرہ شدید مشکلات کا شکار ہو گیا۔
نئے امریکی صدر جوبائیڈن کو اب کئی محاذوں پر لڑنا ہوگا، انھیں اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ انھیں بہترین دماغوں پر مشتمل ایک فعال اور مخلص ٹیم تشکیل دینا ہوگی، جس کا ہر ممبر اپنے کام میں طاق ہونا چاہیے۔ صدر بائیڈن کو سب سے بڑا چیلنج وقت کی کمی کا ہے۔ یعنی وقت کم ہے اور مسائل انتہائی سنجیدہ اور سنگین۔ درج ذیل شعر ان کی پریشانی کی عکاسی کرتا ہے:
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
بیرونی محاذ پر بھی صدر بائیڈن کو ایک کامیاب حکمت عملی اختیارکرنے کی ضرورت درپیش ہوگی۔ جن میں اقتصادی اور سیاسی میدان میں چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو بہتر انداز میں استوارکرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر طریقے سے قائم رکھنے کا معاملہ بھی کم گمبھیر نہیں۔ دنیا کے حالات انتہائی تیزی سے بدل رہے ہیں، جس کی وجہ سے معاملات اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ذرا سی غلطی یا بے احتیاطی کی وجہ سے حالات بہت زیادہ بگڑسکتے ہیں۔ جہاں تک پاک امریکا تعلقات کا سوال ہے تو اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔
افغانستان کا مسئلہ کیا رخ اختیار کرے گا اور امریکا کی نئی انتظامیہ کی آیندہ پالیسی کیا ہوگی اس بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا اس وقت ممکن نہیں۔ نئے امریکی صدر اپنے پیش روکی پالیسی پر کس حد تک عمل کریں گے یا کس حد تک اختلاف کریں گے۔ اس بارے میں بھی کوئی قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں۔ کیونکہ معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ کو بیٹھے۔ تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں نئی امریکی انتظامیہ کی پالیسی میں شاید ہی کوئی تبدیلی واقع ہو۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونا اور نئی امریکی انتظامیہ سے کوئی اچھی توقع کرنا مناسب نہیں ہے۔
فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ "ہرکہ آمد عمارت نو ساخت" صدر جوبائیڈن پر بھی یہ کہاوت صادق آرہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی سب سے پہلا اقدام یہ کیا کہ سابق صدر ٹرمپ نے جن مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی وہ فوراً اٹھا لی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک پاکستانی نژاد خاتون کو اٹارنی جنرل جیسے انتہائی اہم عہدے پر فائز کردیا۔ اس سے ان کی پالیسی کے رخ کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ ایک تنگ نظر اور تنگ دل شخص تھے۔ اسلام اور مسلمانوں سے انھیں خاص طور پر بیر تھا۔
ان کی آنکھوں پر تعصب کی عینک لگی ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی دوستی تھی۔ توقع کی جا رہی ہے کہ صدر جوبائیڈن اس راستے پر چلنے سے اجتناب کریں گے اور ایک متوازن پالیسی اختیار کریں گے۔ ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی ہے کہ بائیڈن کے دور صدارت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کسی نہ کسی حد تک بہتری آئے گی۔
یاد رکھیے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں جب بائیڈن نائب صدر کے عہدے پر فائز تھے تو اس وقت کیری لوگر امریکی قانون کے تحت پاکستان کو امداد فراہم کی گئی تھی۔ کاروباری حلقوں کا خیال ہے کہ صدر جوبائیڈن کے دور صدارت میں پاکستان اور امریکا تجارتی تعلقات بہتر ہوں گے۔