پروفیسر عنایت علی خان
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
پروفیسر عنایت علی خان بھی ملک عدم روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ہی اکبر الٰہ آبادی کی قائم کردہ طنز و مزاح کی شاعری کا ایک اہم ستون زمیں بوس ہو گیا۔ مرحوم نہ صرف معیاری مزاحیہ شاعری کے تاجدار تھے بلکہ اعلیٰ اخلاقی قدروں کے بھی شاہکار تھے۔ ان کی رحلت سے محفل شعر و سخن سونی ہوگئی۔
موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ شگفتہ مزاجی اور وضع داری ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ انھوں نے 13 اپریل 1935 کو برٹش انڈیا کے دور کی ریاست ٹونک میں آنکھ کھولی۔ نومبر 1948 کو وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے بھارت سے پاکستان چلے آئے۔ حسن اتفاق سے یہ بقر عید کا دن تھا جب 13 اکتوبر 1948 کو ان کے خاندان نے سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ حیدرآباد میں ہی انھوں نے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے انھوں نے 1955 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے تلاشِ معاش کا آغاز کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی سٹی کالج حیدر آباد میں شام کی کلاسوں میں پڑھائی بھی شروع کردی۔
انھوں نے 1957 میں انٹر اور 1959 میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1961 میں اول پوزیشن کے ساتھ اردو ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ تدریس کے حوالے سے انھوں نے بی ایڈ کا امتحان پاس کرکے اپنے علمی سفر میں ایک اور سنگ میل عبور کیا اور 1963 میں مغربی پاکستان کی حکومت میں سرکاری ملازمت اختیار کی جہاں ان کی پہلی پوسٹنگ خیرپور میں ہوئی اور پھر ان کا تبادلہ حیدر آباد ہو گیا۔
انھوں نے کچھ عرصے پنجاب کے شہر گجر خان میں بھی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر اے اے فاروقی کے اصرار پر انھوں نے بالآخر 1966 میں کیڈٹ کالج پٹارو میں شمولیت اختیار کرلی۔ کرکٹ کے کھیل سے عنایت علی خان صاحب کو بڑا لگاؤ تھا۔ انھوں نے کیڈٹ کالج پٹارو میں طالب علموں کو اردو پڑھانے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کی کوچنگ کا فریضہ بھی انجام دیا۔ کرکٹ ورلڈ کپ 1992 کے حوالے سے ان کی انتہائی مقبول نظم کا یہ مصرعہ ہماری طرح آج بھی بہت سے شائقین کرکٹ کے کانوں میں گونج رہا ہے:
ذرا یہ ورلڈ کپ ہو لے پھر اس کے بعد دیکھیں گے
کیڈٹ کالج پٹارو میں ان کا عرصۂ تدریس انتہائی مختصر تھا جو 1969 تک جاری رہا جس کے بعد انھوں نے جماعت اسلامی کے اصرار پر سکھر میں "تعمیر نو" اسکول میں بحیثیت مدرس شمولیت اختیار کی۔ 1970 کے قومی انتخابات کے موقع پر انھوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انتخاب بھی لڑا، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔
1971 میں انھوں نے غزالی کالج حیدر آباد میں پرنسپل کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے تحت وہ سیاست کا شکار ہوکر اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے جس کے بعد مسلم کالج حیدرآباد سے وابستہ ہوگئے۔ عنایت صاحب نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیر انتظام کئی درسی کتابیں بھی تحریر کیں مگر ان کی اصل وجہ شہرت ان کی لافانی شاعری ہے جس کی بنا پر وہ ہمیشہ اپنے بے شمار چاہنے والوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہیں گے۔ اگرچہ انھوں نے دیگر اصناف میں بھی اپنا لوہا منوایا لیکن ان کے نام کا ڈنکا ان کی مزاحیہ شاعری نے ہی بجوایا۔ وہ جو مرزا غالب نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
وہ پروفیسر عنایت علی خان صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ ان کا کلام اور ان کا اندازِ بیان انھی کا حصہ ہے۔ بلاشبہ وہ ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے پسماندگان کے علاوہ اپنے بعد اپنی شاعری کی پانچ یادگار کتابیں چھوڑی ہیں جن میں اذراہِ عنایت، عنایات، عنایات نامہ، عنایتیں کیا کیا، کلیاتِ عنایات شامل ہیں۔
اس موقع پر ہمیں حیدرآباد اور خیرپور کے وہ مشاعرے یاد آ رہے ہیں جن میں ہم بحیثیت شاعر ان کے ہم رکاب تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہمیں ہی نہیں بلکہ ساکنانِ حیدرآباد کو ریڈیو پاکستان حیدرآباد سندھ یونیورسٹی اور فاران کلب حیدرآباد کے باہمی اشتراک سے 12 جولائی 1997 کو دیال داس کلب حیدرآباد میں منعقدہ وہ عظیم الشان مشاعرہ ضرور یاد رہے گا جس کی صدارت قتیل شفائی نے فرمائی تھی اور جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے گورنر سندھ جنرل معین الدین حیدر صاحب تھے۔ اس مشاعرے کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پاکستان کے علاقائی زبانوں کے معروف شعرا نے بھی اپنا کلام پیش کیا تھا۔
عنایت علی خان صاحب نہ صرف پیدائشی شاعر تھے بلکہ شاعری ان کے خون میں شامل تھی۔ ان کے والد ہدایت علی خان ٹونکی اپنے دور کے مشہور شاعر شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی کے علاوہ ان کے نانا، دادا اور چچا جان بھی عمدہ شعر کہتے تھے گویا "ایں خانہ ہمہ آفتاب است"۔ پروفیسر عنایت علی خان کراچی سے شایع ہونے والے جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کے ترجمان ماہنامہ "سوداگر" کی مجلسِ مشاورت کے اہم رکن بھی تھے۔ اس ماہنامے کے تازہ ترین شمارے جون/جولائی 2020 میں شایع ہونے والی ان کی خوبصورت نظم بعنوان "کشمیر کی فریاد" سے ایک اقتباس پیش ہے:
ارضِ کشمیر سے آتی ہے یہ دلدوز صدا
اے خدا! اب تو کسی یار و مددگار کو بھیج
اپنی رودادِ الَم جا کے سناؤں کس کو؟
زخمِ دل داغِ جگر جا کے دکھاؤں کس کو
اور یہ حالِ زبوں جا کے بتاؤں کس کو
کس کو آواز دوں نصرت کو بلاؤں کس کو
اے خدا! اب تو کسی یار و مددگار کو بھیج
پروفیسر عنایت علی خان نے بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اتوار 26 جولائی کو کراچی میں وفات پائی، جہاں وہ اپنے صاحبزادے کے پاس علاج کی غرض سے مقیم تھے۔ دل کا دورہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا اور ماڈل کالونی کے قبرستان میں انھیں سپرد خاک کردیا گیا۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ) حق تعالیٰ ان کی مغفرت اور درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ ( آمین!)
خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں