پنشن کی ٹینشن
ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت فارسی زبان کی ضر ب المثل کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ہر آنے والا اپنے انداز کے مطابق ایک نئی عمارت تعمیر کرتا ہے، چنانچہ عمران خان " نیا پاکستان " تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔
فی الحال تو توڑ پھوڑ کا عمل ہی جاری ہے جس کی تان معلوم نہیں کب اور کہا ںجا کر ٹوٹے گی۔ ادھر بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے بے بس اور بے زبان عوام کو روٹیوں تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ادھر حکمرانوں کی جانب سے فلاحی ریاست کے قیام کے دلفریب افسانے سنا سنا کر انھیں بہلانے پھسلانے کی کوشش ناکام کی جارہی ہے۔
ماضی کے حکمرانوں کی طرح مفاد پرستوں اور چاپلوسوں نے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو گھیرے میں لے کر انھیں عوام سے کاٹ دیا ہے جس کا انجام بھی خدا نخواستہ وہی ہو سکتا ہے جو بد قسمتی سے اب تک ہوتا رہا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے شاہ کو سرکاری ملازمین سے بدظن کرانے کے لیے کچھ قیمتی مشورے دیے ہیں جن کے پس ِ پشت یہ نیت کار فرما ہے کہ" چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرینگے "مشیران کرام نے وزیر اعظم کو یہ پٹی پڑھانے کی کوشش کی ہے "حضور!سرکاری ملازمین کو دی جانے والی پنشن سرکاری خزانہ پر خواہ مخواہ کا بوجھ ہے جس سے جان چھُڑائی جا نی چاہیے " سرکاری ملازمین کے خلاف پکنے والی کچھڑی کی بُو اسی وقت سونگھ لی تھی جب حکومت ِ پنجاب کے ایک بڑے اہل کار کے خلاف کرپشن کے الزام کے تحت کارروائی کا آغاز ہوا تھا۔
اس کے بعد جب وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پھوٹی کوڑی کا بھی اضافہ نہ کر کے انھیں کمر توڑ مہنگائی کے عفریت کے حوالے کر دیا گیا تو یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ احساس پروگرام کی تشہیر کرنے والی حکومت کو محدود آمدنی میں اپنا اور اپنے بال بچوں کا روز افزوں بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی میں گزارہ کرنے والے ملازمین کی مشکلات کا اندازہ تو کجا بالکل احساس ہی نہیں ہے۔ حکومت کے سرکاری ملازمین سے سوتیلے پن کے سلوک کے نتیجے میں بیزاری اور مایوسی کا پھیلنا ایک فطری امر ہے۔
اس کا ایک اور بھیانک نتیجہ رشوت خوری، بدعنوانی اور کرپشن میں اضافہ کی صور ت میں نکلے گا جس کا خاتمہ پی ٹی آئی کی حکومت کا اولین ہدف ہے۔ وفا داری بشرط ِ استواری۔ یوں بھی حکومت کا سرکاری ملازمین کے ساتھ یہ معاندانہ رویہ اس کے اسلامی فلاحی نظریے اور ریاست ِ مدینہ جیسی مثالی ریاست کے قیام کے دعوے کی نفی کرتا ہے جس کا ڈھنڈوراپیٹا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی دوسالہ مدت کے اختتام پر اس کی کارکردگی کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے گردشی قرضوں کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو دی جانے والی پنشن کو بھی ہدفِ تنقید بنایا اور اسے سرکاری خزانے پر ایک بہت بھاری بوجھ ہونے کا سبب قرار دیا۔ آغازِ کلام انھوں نے پی ٹی وی کے ادارے سے کیا جس کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی سالانہ 14ارب روپے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ 500 ارب روپے ہے جس میں 460 ارب روپے پنشن کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ ملک پنشن کی وجہ سے دبا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہوں کی رقم 500 ارب روپے بنتی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ گردشی قرضوں سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اسے براہ راست حل کریں گے۔
پنشن کے حوالہ سے طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں جن کی وجہ سے بیچارے لاکھوں پنشنرز شدید تشویش اور نا قابلِ بیان ٹینشن (Tension) میں مبتلا ہیں کہ کہیں " تبدیلی سرکار " ان کے خلاف کوئی ایسا کھیل تو کھیلنے نہیں جا رہی، جس کے نتیجے میں ان کے منہ کا آخری نوالہ اور بڑھاپے کی لاٹھی کا سہارہ بھی چھن جائے۔ گستاخی معاف پاکستان کی عوام نے گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان اور تحریک انصافکو ووٹ اس امید پر دیا تھا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق انصاف کا بول بالا کریں گے اور ان کی زندگیوں میں اندھیروں کو مٹا کر اُجالا کریں گے۔ مگر افسوس پی ٹی آئی سرکار کی گزشتہ دو سالہ کارکردگی کا لب ِ لباب ایک فلمی گانے کے یہ دکھ بھرے بول ہیں:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
موجودہ حکومت کی آمد کے بعد تبدیلی ضرو ر آئی ہے مگر بہتری سے زیادہ بدتری کی صورت میں۔ عوام کا سب سے بڑا اور سنگین ترین مسئلہ مہنگائی کا تھا جو حل ہونے کی بجائے گزشتہ دو سال کے عرصہ میں گمبھیرسے گمبھیر تر ہوا ہے۔ مہنگائی نے محدود آمدنی والے طبقات کو سب سے زیادہ متا ثر کیا ہے جن میں تنخواہ دار ملازمین، بالخصوص درمیانہ درجہ اور نچلے درجہ کے سرکاری ملازمین شامل ہیں جن میں بیچارے پنشنرز سرِ فہرست ہیں۔ ان میں بیشتر خوراک سے زیادہ دواؤں کے طلبگار ہیں جن کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔
مرتا کیا نہ کرتا بیچارہ پنشنر محض زندہ رہنے کی خاطر مہنگی سے مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور ہے۔ ان حالات میں پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کی بجائے ان کی ٹینشن میں اضافہ کرنا سرا سر زیادتی اور کھلی بے انصافی ہے جو اس حکمران جماعت کو تو ہر گز زیب نہیں دیتا جس کے نام اور شناخت کی بنیاد ہی " انصاف"ہو۔
یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ پیپلز پارٹی وطن ِعزیز کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی ہر حکومت ہمیشہ سے عوام دوست رہی ہے۔ سقوط ِ مشرقی پاکستان جیسے عظیم سانحہ کے باوجود نہ تو ملازمین کی چھانٹی کا بہانہ تلاش کیا گیااور نہ خزانہ خالی ہونے کا رونا رو کر سرکاری ملازمین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ بلکہ حالات سنبھلتے ہی سرکاری ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد اقدامات شروع کیے گئے جن میں تنخواہوں، پنشن اور دیگر مراعات میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔
اس کے بعد اگر کسی شخص نے سرکاری ملازمین کے ساتھ ہمدردی اور انصاف پسندی کا عملی مظاہرہ کیا تو وہ وطنِ عزیز کے مایہ ناز ماہرِ اقتصاد یات ڈاکٹر محبوب الحق ( مرحوم) تھے جنہوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ انڈیکسیشن ( Indexation ) کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کو ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی شرح سے منسلک کر دیا گیا، یعنی جس شرح سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو اسی شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی بڑھا دی جائیں مگر افسوس یہ نظام جاری نہ رہ سکا۔
حکومت کی جانب سے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو ادا کی جانے والی پنشن کوئی صدقہ یا خیرات نہیں۔ یہ ان کا حق ہے جسے ان سے کوئی مائی کا لال چھین نہیں سکتا۔ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوئی مذموم کوشش کی تو اُسے منہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ اس کی گوشمالی کرنے کے لیے وطنِ عزیز میں آزاد اور انصاف پسند عدلیہ موجود ہے۔
اس لیے ہم ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو اطمینان دلاتے ہیں کہ وہ حوصلہ رکھیں اور خواہ مخواہ کی ٹینشن کا شکار نہ ہو ں۔ اچھی حکمرانی (Good Governance)کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسائل کی درست طور پر تشخیص کی جائے اور پھر ان کا مناسب حل تلاش کیا جائے۔ اُمید واثق ہے کہ حکومت اس سلسلے میں ایسا کوئی بھی قدم اُٹھانے سے گریز کرے گی جس سے ریٹائرڈ ملازمین کے مفاد کو زک پہنچتی ہو۔