پہلی عالمی حمد و نعت کانفرنس
سال نو کا آغاز ابتدائی مہینے کی آخری تاریخوں یعنی 30 اور 31 جنوری کے اختتامی ایام میں شہر قائد کراچی میں منعقدہ ایک مبارک تقریب کے ساتھ ہوا۔ یہ تقریب "پہلی حمد و نعت کانفرنس" کے عنوان سے منعقد ہوئی جس میں ایک خصوصی حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ بھی شامل تھا۔ اردو ادب میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ کانفرنس تھی، جس کا اہتمام بیاد سید الشہدا سیدنا حمزہؓ و شاعر دربار رسالت حضرت حسانؓ کیا گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور ادارہ چمنستان حمد و نعت ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان اس کارخیر میں برابرکے شریک تھے۔
کانفرنس کا افتتاحی اجلاس 30 جنوری (بروز ہفتہ شام کے وقت) آڈیٹوریم آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ہوا۔ مجلس صدارت ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی، محسن اعظم محسن، ملیح آبادی، ڈاکٹر عزیز احسن، تابش الوریٰ، پروفیسر خیال آفاقی اور اشفاق احمد غوری پر مشتمل تھی۔ خطبۂ استقبالیہ پیش کرنے کا شرف طاہر حسین طاہرسلطانی کو حاصل ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں حمدیہ مقالات پیش کیے گئے اور اس کے بعد ایک حمدیہ محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔
کانفرنس کا پہلا روز حمدیہ شاعری کے موضوع پر تحریر کیے گئے مقالات پر مشتمل تھا جب کہ دوسرا روز نعتیہ موضوعات اور مقالات اور مضامین کے لیے مختص تھا۔ اسلام آباد سے آئے ہوئے مہمان معروف نعت گو شاعر اور محفل نعت پاکستان، اسلام آباد کے روح رواں ریاض الاسلام عرش ہاشمی کا مقالہ "علامہ اقبال کی نعتیہ شاعری" خاصے کی چیز تھا جسے ہمہ تن گوش ہو کر سنا گیا اور جسے سب ہی نے بہت پسند کیا اور خوب خوب سراہا۔ درویش صفت عرش ہاشمی منفرد لب ولہجے کے نعت گو شاعر ہیں جن کی زندگی پیروی نبیؐ اور جن کی سخن وری مدحت مصطفیؐ کے لیے وقف ہے۔
مقالات کی نشست طول پکڑ جانے کی وجہ سے مشاعرے کا انعقاد مشکل نظر آ رہا تھا کیونکہ وقت کافی گزر چکا تھا لیکن کانفرنس کے روح رواں طاہر سلطانی نے ہار نہیں مانی اور خود نظامت سنبھال کر مشاعرے کا آغاز کردیا۔ پابندی یہ عائد کی گئی کہ وقت کی کمی کی نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شاعر اپنے کلام کے صرف 3 اشعار پیش کرے گا۔ کانفرنس کی صدارت کے فرائض فیصل آباد سے آئے ہوئے نامی گرامی بزرگ ڈاکٹر ریاض مجید نے انجام دیے جن کا حمد و نعت سے قلبی تعلق ہے اور طرہ امتیاز یہ ہے کہ حمد و نعت کے موضوع پر وہ پہلے شخص ہیں جنھیں پی ایچ ڈی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ہم نے ڈاکٹر صاحب موصوف کا تذکرہ اپنے عزیز دوست ڈاکٹر عزیز احسن کی زبانی سنا تھا جس نے اشتیاق ملاقات کی شدت کوکافی بڑھا دیا تھا لیکن عرش ہاشمی کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی کراچی آمد کے موقع پر ڈاکٹر صاحب موصوف سے ہماری بالمشافہ ملاقات کرا دی اگرچہ یہ ملاقات انتہائی مختصر تھی لیکن اس کی چھاپ تمام عمر باقی رہے گی۔ اس ملاقات سے جو تاثر ابھرا اس کا اظہار سرور بارہ بنکوی کے اس خوبصورت شعر میں مضمر ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
کانفرنس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس نوعیت کی کوئی کانفرنس اس سے قبل منعقد نہیں ہوئی۔ اتنی بڑی کانفرنس کے جملہ انتظامات پایہ تکمیل تک پہنچانا اور کانفرنس میں کراچی سمیت اندرون ملک اور اس کے علاوہ دیگر ممالک سے آن لائن متعدد شخصیات کی شرکت اور اظہار خیال منتظمین کی کامیابی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ بھی تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کارخیر میں کراچی آرٹس کونسل کے تعاون کا بندوبست کرکے اپنا حصہ ڈالا۔ تاہم اس کا اصل سہرا ادارہ چمنستان حمد و نعت کراچی کے سر ہے۔
بلاشبہ یہ ایک کامیاب کانفرنس تھی جس کا انعقاد نہایت سادہ مگر پروقار طریقے سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے دوران اسٹیج کی زینت بننے والے مختلف اہل قلم حضرات نے تابش الوریٰ، محسن ملیح آبادی، ساجد رضوی (امریکا) اور انجینئرحافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی کراچی)، خواجہ وقار یوسف عظیمی مدیر روحانی ڈائجسٹ کراچی اور علامہ نسیم احمد صدیقی و دیگر حضرات شامل تھے۔
بیرون کراچی سے آنے والے مہمان شعرا کرام کے قیام کا بندوبست پیر الٰہی بخش کالونی میں واقع جامعہ الشعریا میں کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹر ریاض مجید (فیصل آباد)، ڈاکٹر صدف چنگیزی(کوئٹہ)، جناب واجد امیر (لاہور)، جناب اشفاق احمد غوری (ملتان)، اور جناب نوید حسین اقبال (اوکاڑہ) کو ٹھہرایا گیا تھا۔ اس دو روزہ کانفرنس کے پروگرام کی نظامت کے فرائض مشترکہ طور پر پروفیسر محمد سہیل شفیق اور ڈاکٹر محمد طاہر قریشی نے نہایت خوبصورتی اور مہارت سے انجام دیے۔
حافظ محمد نعمان طاہر نے انتہائی خوش الحانی سے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت اور نعت رسول مقبولؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ طاہر حسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس کے بعد نعت کے موضوع پر مقالات اور مضامین پیش کیے گئے۔ ہر مقالہ نگار نے اپنی بساط کی حد تک موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس اعتبار سے ہر مقالہ اپنی جگہ داد و تحسین کا مستحق تھا لیکن عرش ہاشمی کا مقالہ اپنی مثال آپ تھا۔ مقالہ نگار نے نعتیہ شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال اور ان کی شاعری کو اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے اقبال کی نعتیہ شاعری سے خصوصی اشعار کا انتخاب کیا ہے اور حضورؐ کے ساتھ علامہ کے پرسوز جذبہ عشق کی نہایت خوبصورت انداز میں عکاسی کی ہے۔ اس مقالے میں مقالہ نگار کی حضور پاکؐ سے قلبی وابستگی کی جھلک بھی صاف نظر آتی ہے۔ یہ مقالہ حب نبیؐ کا آئینہ دار ہے۔ اقبال ہی کے بقول:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
جس طرح کوئی ایک شعر حاصل غزل ہوتا ہے اسی طرح علامہ اقبال کی شاعری کے حوالے سے تحریر کیا گیا عرش ہاشمی کا یہ مقالہ بھی بزم مقالہ میں حاصل غزل کا درجہ رکھتا تھا۔ اس حوالے سے مرزا غالب کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
ہیں دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
بس یوں کہیے کہ جیسے عرش ہاشمی نے گویا مشاعرہ ہی لوٹ لیا ہو۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
کورونا کی ہلاکت خیز وبا کے باوجود اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کی محبت سے سرشاری ہی کا کمال تھا کہ اس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ شمع محمدؐ کے پروانوں کی پرخلوص کاوش کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔ یہ کانفرنس بارش کا پہلا قطر تھی۔ امید ہے کہ آیندہ منعقد ہونے والی کانفرنس اس سے کہیں زیادہ عظیم الشان ہوگی۔