پاک سعودی تعلقات
پاکستان اور سعودی عرب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سعودیہ عرب اسلام کا گہوارہ اور پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ دونوں ممالک دین اسلام کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ یک جان دو قالب والا رشتہ ہے، باالفاظ دیگر گوشت اور ناخن کا تعلق۔ آفتاب اسلام عرب کی سرزمین سے طلوع ہوا اور برصغیر کا وہ خطہ جس میں پاکستان واقعہ ہے تبلیغ اسلام کا مرکز بنا۔
یہ پاک وطن اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلایا۔ تمام اسلامی ممالک میں صرف پاکستان ہی کو ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جوکہ دیگر اسلامی ممالک کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کے نام سے بھی موسوم کیا گیا۔
قیام پاکستان کے روز اول سے ہی اس کی اعلیٰ قیادت مسلم امہ کی یکجہتی کی قائل تھی جس کا اظہار مصور پاکستان علامہ اقبال اپنے اس شعر میں بہت پہلے ہی کرچکے تھے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
اقبال کی اس دلی آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ کر اس کارِ خیر کا آغاز کردیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں برادر ممالک کے رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان دینی بھائی چارے کی فضا خوشگوار ہونے کے باعث ثقافت، معیشت اور تجارت کے شعبوں میں بھی دونوں ممالک کے تعلقات تیزی کے ساتھ فروغ پاتے چلے گئے۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب دونوں ممالک کے درمیان دفاع کے شعبے میں بھی باہمی تعاون کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سعودی عرب کے فوجی جوان پاکستان کی تربیت گاہوں میں جوق در جوق آنے لگے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔
سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کی اصل بنیاد دین اسلام پر قائم ہے۔ یہ وہ دین ہے کہ جس نے پوری دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کردیا کہ جس کی نہ اس سے پہلے کوئی مثال تھی، نہ اب ہے نہ تاقیامت کبھی ہوگی۔ اس مقدس سرزمین کو امام الانبیا، نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیؐ کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل ہے۔
پاکستان کے مسلمان اس مقدس سرزمین کے دفاع کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک نثار کرنے کے لیے ہر گھڑی تیار ہیں۔ یہ مقدس سرزمین انھیں ہر شے سے پیاری ہے جس میں ان کی جان بھی شامل ہے۔ اس حقیقت کا علم سعودی عرب کو بھی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان مقدس سرزمین ہونے کے ناطے سعودی عرب سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں سعودی حکمرانوں کا بھی مسلمانوں کے ہاں ایک اہم اور بڑا مقام رہا ہے، شاہ فیصل سے پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمان آج بھی محبت اور عقیدت کے جذبات رکھتے ہیں، اور انھیں مسلم دنیا کا بہترین رہنما تصور کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، پاکستان کو جب بھی کبھی مالی مشکلات کا مسئلہ درپیش آیا سعودی عرب نے آگے بڑھ کر مدد کی، افغانستان سمیت دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی مشکل وقت آیا تو سعودی عرب نے انھیں اپنے ہی وجود کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کی بھرپور مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور وہاں کے حکمرانوں کی حمایت میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل دھڑکتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب پر مشتمل اسلام کا یہ قلعہ یہود اور ہنود کی آنکھوں میں ہمیشہ سے بری طرح کھٹکتا ہے چنانچہ ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح اس قلعے میں نقب لگائی جائے۔ اسرائیل کو مسلم ممالک سے تسلیم کرانے کا حالیہ سلسلہ اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی تجارتی تعلقات بھی وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پاتے رہے ہیں، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب کے مختلف محکموں میں کام کر رہی اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ دشمن قوتیں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان جتنی مرضی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتیں، پاکستانی مسلمانوں کو سعودی سرزمین سے اپنی جان سے زیادہ محبت ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کے دفاع کو ہمیشہ اولیت دی ہے جب کہ سعودی عرب نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو اس برسوں پرانے اخوت کے رشتے کو برقرار رکھنا چاہیے وقت اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ یہ خبر خوش آیند ہے کہ سعودی وزیر خارجہ اگلے ماہ پاکستان کے دورے پر آنے والے ہیں۔
دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے حوالے سے یہ دورہ نہایت اہم ہوگا۔ دشمن کی سازشوں اور چالوں کو ناکام بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو زندگی کے تمام شعبوں میں مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے، زراعت، خوراک اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی اور خوشحالی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ پلیٹ فارم پر کام کیا جانا چاہیے اس سے دونوں کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔
اس وقت ہمیں وہ سنہری دور یاد آ رہا ہے جب شاہ فیصل شہید سعودی عرب کے سربراہ تھے جنھیں امت مسلمہ کے اتحاد کا روح رواں اور علم بردار کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے تعلقات کا یہ بہترین اور مثالی دور تھا جس کا اعادہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔