ماہِ فروری
فروری کا ماہِ رواں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی مہینے میں عالمی شہرت یافتہ اُردو زبان کے شاعر فیض احمد فیض کی ولادت اور شاعرِ بے بدل مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی وفات واقع ہوئی۔ حسن اتفاق سے اس خاکسارکی پیدائش بھی اسی مہینے میں وقوع پذیر ہوئی۔ موسمِ بہارکا مہینہ بھی یہی ہے۔ جب غنچے چٹختے ہیں اور گلہائے خوش نما کھلتے ہیں۔ بقول فیضؔ:
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
سیالکوٹ کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے نابغۂ روزگار کے بعد فیض احمد فیض جیسا عظیم شاعر پیدا کیا۔ گزشتہ ہفتے شہرِ قائد میں فیض صاحب کا 110 واں یومِ پیدائش منایا گیا۔ اس موقع پر فیض صاحب کا کلام پیش کرنے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ مختلف گلوکاروں نے اپنی، اپنی آوازوں میں فیض صاحب کا کلام پیش کیا۔
فیض صاحب سے ہمارا غائبانہ تعارف سن 50 کی دہائی کے اواخر میں ہوا۔ جب ہم دہلی کالج میں ایک طالب علم ہوا کرتے تھے۔ ہمارے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر رندھیر سنگھ سے اس تعارف کا آغاز ہوا، جو فیض صاحب کی شاعری کے زبردست عاشق تھے۔
اس وقت ہمیں یہ اندازہ نہ تھا کہ کبھی زندگی میں وہ لمحہ بھی آئے گا جب ہمیں صاحبِ موصوف سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ قصہ کوتاہ، ہوا یوں کہ ہمارے بزرگ عزیز دوست کرار نوری (مرحوم) کا مجموعہ کلام "میری غزل" شایع ہوا۔ تو اس کی تقریب رونمائی کی صدارت کے لیے فیض صاحب کو لندن سے کراچی مدعوکیا گیا۔ اس تقریب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس کا انعقاد آرٹس کونسل کراچی کے سبزہ زار میں کیا گیا، جس کے لیے خصوصی اجازت حاصل کی گئی۔ اس یادگار تقریب میں شعر و ادب کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ کرار نوری صاحب کے فیض صاحب سے انتہائی گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ فیض صاحب جو ان دنوں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے بطور خاص اس تقریب کی صدارت کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ کرار نوری صاحب کے اصرار پر ہمیں اس تقریب میں اظہار خیال کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ فیض صاحب اتنے خوش ہوئے کہ ہماری پیٹھ تھپتھپانے کے لیے اٹھ کر آگئے، جس کا احساس کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس حوالے سے جون کیٹس(Jhon Keats) کی ایک خوبصورت نظم کا یہ مصرعہ یاد آرہا ہے:
A thing of beauty is a joy forever.
اس خوبصورت تقریب کا اہتمام T2F نامی تنظیم نے کیا تھا۔ T2F کے ڈائریکٹر شکیل جعفری نے آغا ناصر کے حوالے سے فیض کی شاعری پر اظہار خیال کیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ آغا ناصر مرحوم کو فیض صاحب سے خصوصی قرب حاصل تھا۔
ہر سال جب 15 فروری کی تاریخ آتی ہے تو شاعر بے بدل مرزا اسد اللہ خاں غالب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جو سن 1896 میں اپنی سخن وری کا جادو جگا کر اس دیارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اگرچہ ان کا دیوان بہت زیادہ ضخیم نہیں، مگر ان کا اندازِ بیان بڑے بڑے سخن وروں پر غالب ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
دریا کو کوزے میں بند کر دینے کا کمال غالب کا طرۂ امتیاز ہے۔ مرزا غالب نے طرح طرح کے موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے اور وہ بھی اس انداز سے کہ قاری کی عقل حیران ہو جاتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس طرح کے مضامین ذہن میں کیونکر آئے۔ اس سوال کا جواب مرزا نے خود ہی اس شعر کی صورت میں پیش کیا ہے:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے