ہمارا المیہ (دوسرا اور آخری حصہ)
وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے موقعہ پرستوں کے لیے راستہ ہموار ہوگیا۔ بس یوں کہیے کہ یہ (Game of Musical Chairs) کا نقطہ آغاز تھا۔ ہرکوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا خواہاں تھا۔ کبھی کوئی وزیر اعظم بنتا تھا اورکبھی کوئی۔ اس صورتحال پر طنزکرتے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتے ہیں۔
یہ دور مکمل عدم استحکام کا دور تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم آئی آئی چندری گڑھ بمشکل ایک ماہ اپنے عہدے پر برقرار رہ سکے، گویا یہ بچہ سقہ کی حکمرانی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اقتدارکی باگ ڈور اسکندر مرزا کے ہاتھوں میں آگئی، مگر یہ قصہ بھی جلد ہی تمام ہو گیا اور عنان حکومت جنرل محمد ایوب خان نے سنبھال لی۔ اس کے ساتھ ہی وطن عزیز میں آمریت کا آغاز ہوگیا۔ وقت گزرنے کے بعد ایوب خان نے حالات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اقتدارکو برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا نظام متعارف کرایا جس کا نام بنیادی جمہوریت رکھا گیا۔
اس نظام کا اصل مقصد آمریت کو جمہوریت کا لبادہ پہنانا تھا۔ ایوب خان نے دس سال تک وطن عزیز پاکستان پر راج کیا اور بڑی دھوم دھام سے دس سالہ جشن منایا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اقتدار کی ڈور ایوب خان کے ہاتھوں سے نکل جائے گی، لیکن ہرکمال کو زوال ہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر ان کے خلاف ملک گیر تحریک چلی جس نے کراچی سے نکل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اگرچہ ایوب خان کا دور حکمرانی آمریت سے عبارت تھا، تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں استحکام اور ترقی کا یہ سنہرا دور تھا۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان کی ترقی کی شرح نمو دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔ عشرہ ترقی اسی کامیابی کو اجاگر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس تناظر میں انگریزی زبان کے ایک ممتاز شاعر اور مفکر ایلگزنڈر پوپ کا یہ مشہور قول یاد آ رہا ہے:
"For Forms of government let fools contest. Whatever is best administered is best."
طرز حکمرانی کی بحث میں الجھنا احمقوں کا کام ہے۔ بہترین طرز حکومت وہی ہے جس میں بہترین انتظام ہے۔
عوامی تحریک نے ایوب خان کو اقتدار سے دست بردار ہونے پر مجبورکردیا اور وہ یہ ذمے داری جنرل یحییٰ خان کے حوالے کرکے رخصت ہوگئے۔ جنرل یحییٰ خان کی شخصیت اور حکمرانی کے بارے میں لب کشائی نہ کرنا اس لیے بہتر ہوگا کہ بعد از مرگ کسی کی عقدہ کشائی کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا عظیم سانحہ انھی کے دور میں پیش آیا۔ یہ وہ کاری زخم ہے جو تاقیامت مندمل نہیں ہوگا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اس عظیم سانحے کو یکسر فراموش کردیا ہے اور اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
وطن عزیز پاکستان کو اس وقت بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اور یہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہ چیلنج دونوں طرح کے ہیں، اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ اندرونی چیلنج کی صورت یہ ہے کہ قوم اپنی اصل شناخت کھو چکی ہے۔ اور لسانی، علاقائی، ثقافتی اور دیگر معاشرتی اختلافات میں تقسیم ہوچکی ہے جس کی تصویرکشی علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بہت خوبصورتی کے ساتھ کی ہے:
فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
وطن عزیز کی غالب اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ غربت سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنے اور اپنے جگرگوشوں کو ہلاک کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ گداگری اور جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔
ایک طرف امراض بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹروں نے اپنی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے علاج کرانا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ رہی سہی کسر کورونا کی وبائے ناگہانی نے پوری کردی ہے، لیکن ہمارے قائدین کرام کو ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے سے ہی فرصت نہیں۔ ان کا کام صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ہی رہ گیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والوں کو اپنا اقتدار بچانے کی فکر ہے جب کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کو کسی نہ کسی طور اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی جستجو ہے۔ روزانہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور بے چارے زبوں حال بھولے بھالے عوام محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آنے والی نئی سیاسی جماعت نے جس کا نام تحریک انصاف ہے وطن عزیز کے عوام سے کیے گئے اپنے تمام وعدے عملاً فراموش کر دیے ہیں اور عوام کا حال یہ ہے کہ:
وفا جن سے کی بے وفا ہوگئے
وہ وعدے محبت کے کیا ہو گئے
گرانی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور عوام سخت پریشان ہیں۔ نہ دن کا چین ہے نہ رات کا سکون۔ حکومت پٹرول کی قیمتیں وقفے وقفے سے مسلسل بڑھا رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں روزبروز کمر توڑ اور ہوش ربا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے اور حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا تھا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے