بن کے رہے گا خالصتان
بھارت کی راج دھانی دلی آج کل پھر اتھل پتھل کی زد میں ہے۔ شاہین باغ کے واقعے کے بعد یہ دوسرا موقعہ ہے کہ جب حالات مودی سرکارکی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بے قابو ہیں۔ مسلمانوں کے بعد اب سکھوں کی باری ہے۔
اس ہلچل کا آغاز مظلوم کسانوں کے احتجاج سے ہوا۔ جو مودی سرکار کے زیادتیوں کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے کی شروعات کسان مخالف حکومتی اقدامات سے ہوئی۔ ان اقدامات کا بنیادی مقصد بی جے پی کو برسر اقتدار لانے والے چند بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ مودی سرکارکو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کسانوں کو ان اقدامات کے نتیجے میں کتنا نقصان پہنچے گا۔ سچ پوچھیے تو ان اقدامات نے بھارتی کسانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔
بھارت بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ جس کی معیشت میں کسانوں کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اسی لیے کسانوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی۔ اسی وجہ سے ان کو ملک گیر مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے اپنی حکمران جماعت کانگریس کے انتخابی نشان میں ہل چلانے والے بیلوں کی جوڑی کو علامت کے طور پر استعمال کیا تھا اور اس نعرے سے خوب خوب فائدہ اٹھایا تھا:
کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی
ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی
بھارت کے چند سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی مودی سرکار نے اس حقیقت کو قطعی نظرانداز کردیا کہ بھارتی کسان بھارت کے دو تہائی لوگوں کو روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بھارت کے زراعتی شعبے میں مشرقی پنجاب کے سکھ کسانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ مودی سرکار کے کسان مخالف اقدامات کا سب سے بڑا نشانہ یہی سکھ بنے۔ مودی سرکار کی بے حسی جب حد سے بڑھ گئی تو ان متاثرین کو خم ٹھونک کر میدان میں اتر جانا پڑا اور یوں اس احتجاج نے ایک تحریک کی صورت اختیار کر لی۔
مودی سرکار نے مظلوم کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی عادت سے شے پا کر احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کرنے کی ٹھان لی۔ بھارتی مسلمانوں کے بعد اب وہاں کی سکھ برادری وہ دوسری اقلیت ہے جو انتہا پسند بی جے پی اور آر ایس ایس نامی متعصب حکمرانوں کی زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے۔ بھارتی سکھ نہ تو اس زیادتی کو بھلا سکتے ہیں جو آپریشن بلواسٹار کے نام پر امرتسر کے تاریخی گوردوارے گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی کی صورت میں کی گئی تھی اور نہ ہی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے موقع پر دہلی میں سکھوں کے قتل عام کی صورت میں ڈھائے جانے والے مظالم کو فراموش کرسکتے ہیں۔
گزشتہ 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مظلوم سکھ برادری کے ہمت والوں نے دہلی کے لال قلعہ پر بھارت کے ترنگے جھنڈے کو اتارکر خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا اور جذبہ آزادی کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ اس موقع پر فضا میں یہ نعرہ گونجتا رہا "بن کے رہے گاخالصتان، لے کے رہیں گے خالصتان "۔ مودی سرکار کے ظلم و ستم نے غیرت مند سکھ قوم کو خواب غفلت سے جگا دیا۔
کسی بھی قوم کے قائدین سے سرزد ہونے والی غلطیوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے سکھوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ آزادی کی تحریک کے زمانے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے سکھوں کے قائد ماسٹر تارا سنگھ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ سکھوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ کانگریس کا ساتھ دینے کے بجائے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کریں۔ قائد اعظم اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ سکھوں کا تعاون خود ان کے حق میں مفید ثابت ہوگا۔ لیکن افسوس کہ سکھ قیادت نے قائد اعظم کے اس نیک مشورے کو تسلیم نہیں کیا۔
انجام کار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ سکھ قیادت کانگریس کے ہاتھوں دھوکا کھا گئی جس کا خمیازہ اسے آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سکھ برادری نے اس ناقابل تردید حقیقت کو فراموش کردیا کہ ان کے بابا گرو نانک کی تعلیمات کا سرچشمہ مسلمان اولیا کرام کی تعلیمات ہیں۔ انھوں نے اس بات کو بھی فراموش کردیا کہ ان کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا خاصا اہم حصہ صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ بابا گرو نانک وحدانیت کے قائل اور بت پرستی کے شدید مخالف تھے۔
اور یہ بھی کہ سکھوں کے سب سے بڑے گوردوارے کا سنگ بنیاد بابا گرونانک نے عظیم مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ کے دست مبارک سے رکھوایا تھا۔ انھوں نے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا کہ سکھوں کے بیشتر مقدس مقامات اس خطے میں واقع ہیں جہاں مملکت پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اگر سکھ قیادت نے قائد اعظم کی بات مان لی ہوتی تو تقسیم ہند کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں سکھ ہندوؤں کے ہاتھوں آلہ کار کے طور پر استعمال نہ ہوتے اور برصغیر کے مسلمان اور سکھ شدید خوں ریزی کا نشانہ نہ بنتے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی زیر قیادت پاکستان کی موجودہ حکومت میں گوردوارہ کرتار صاحب کی راہ داری کو کھول کر بابائے قوم قائد اعظم کی پرخلوص دوستی کی دعوت کی یاد تازہ کرکے مسلم سکھ بھائی چارے کی ایک مرتبہ پھر راہ کھول دی ہے جس پر مودی سرکار چیں بہ جبیں ہے۔ کاش سکھ برادری گردش حالات سے سبق سیکھ کر اپنی روش تبدیل کرے اور سنہری موقع کو ضایع نہ کرے۔