ایک روشن دماغ تھا‘ نہ رہا
شہنائی بڑا عجیب ساز ہے، جس کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
کیا عجب ساز ہے یہ شہنائی
دو سُروں کا یہ کھیل سارا ہے
ایک سُر زندگی کا سنگم ہے
دوسرا موت کا کنارہ ہے
انسانی زندگی بھی شہنائی سے عبارت ہے۔ اس میں غم بھی ہے اور خوشی بھی۔ اس میں آہ بھی ہے اور واہ بھی۔ دسمبر کے مہینے پر بھی یہی بات صادق آتی ہے کہ اس مہینے کے دوران کئی عظیم شخصیات نے اس دنیا میں قدم رنجہ بھی فرمایا اور کوچ بھی کیا۔
جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، محترمہ بے نظیر بھٹو، مرزا اسد اللہ خان غالب اور نابغہ روزگار شمس الرحمن فاروقی جیسی عہد ساز شخصیات شامل ہیں۔ یہ بھی کیا حسن اتفاق ہے کہ شاعر بے مثل مرزا غالب 27 دسمبر کو پیدا ہوئے اور شمس الرحمن فاروقی نے 25 دسمبر کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ فاروقی صاحب نہ صرف مرزا کے مداح تھے بلکہ بلا کے غالب شناس بھی تھے جن پر یہ مصرعہ حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
پرتاب گڑھ کے شمس الرحمن فاروقی کا یوم پیدائش 30 جنوری 1935 ہے۔ وہ اترپردیش بھارت کے شہر کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی ماحول انتہائی مذہبی تھا، جس کا انھوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے۔
ان کے بقول اسی ماحول کی بدولت ان کا رجحان کمیونزم کی طرف کبھی مائل نہیں ہوا۔ ایک زمانے میں وہ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ رہے، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور انھوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی، جس کا ذکر انھوں نے خود بھی کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے دوری کی طرح جماعت سے الگ ہونے کی وجہ بھی ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ کسی مخصوص طرز فکر کے پابند ہونے کے قائل نہیں تھے۔
مذہبی پس منظر رکھنے کے باوجود انھوں نے انگریزی تعلیم میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ جس کے نتیجے میں انھوں نے انگریزی زبان میں M.A کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد سول سروس کا رخ کیا، اردو کے علاوہ انھیں انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کے جوہر انگریزی زبان میں دکھائیں۔
تاہم ان کا رخ اردو کی جانب مڑ گیا۔ سچ پوچھیے تو یہ اردو زبان کی خوش قسمتی تھی۔ اس حوالے سے وہ ہندی بھاشا کے جانے مانے ممتاز شاعر ڈاکٹر ہری رائے بچن کے مماثل تھے، جنھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو انگریزی کے مشہور شاعر ڈبلیو بی یٹس (W.B. Yeats) پر تھیسس لکھ کر حاصل کی اور انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے الٰہ آباد یونیورسٹی میں خدمات انجام دیں۔ لیکن شہرت اور بقائے دوام ہندی کوی کے طور پر حاصل کی۔ انگریزی زبان کے وسیع مطالعے نے انھیں اردو کا اعلیٰ پائے کا نقاد بننے میں بڑا فائدہ پہنچایا۔
فاروقی صاحب ایک ہمہ صفت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بیک وقت شاعر بھی تھے نقاد بھی اور نثر نگار بھی۔ ان تمام جہتوں میں وہ اپنی مخصوص شناخت رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز سات سال کی عمر میں ایک خوبصورت مصرعے سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعری میرے رگ و پے میں رچی ہوئی ہے۔ شعر گوئی کا دامن انھوں نے اپنی آخری سانس تک نہیں چھوڑا۔
گنج سوختہ، سبز اندر سبز، آسماں محراب اور مجلس آفاق میں پروانہ ساں کلیات ان کی سخن وری کے شاہکار ہیں، لیکن ان کی شہرت کا ڈنکا تنقید نگاری اور فکشن کے حوالے سے بجا۔ اگرچہ ان کی تخلیقی صلاحیت کا جوہر صرف تین کتابوں تک محدود ہے لیکن ان کی شہرت کو اسی نے دو آتشہ بنایا۔ ان کا شمار اردو کے بہترین فکشن رائٹرز میں ہوتا ہے۔
ان کے یہاں غالب کو وہی مقام حاصل ہے جو انگریزی زبان میں شیکسپیئر کو حاصل تھا۔ 1966 میں انھوں نے شب خون کے نام سے ایک ادبی رسالہ شایع کرنا شروع کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام پیدا کیا۔ اگر اس رسالے کا موازنہ شاہد احمد دہلوی کے معروف رسالے "ساقی" سے کیا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔
"شب خون" نے ادبی دنیا میں دھوم مچا دی اور اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس ادبی جریدے میں جگہ پانا کسی بھی تخلیق کار کے لیے ایک سند کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ اس کے ہر شمارے میں مرزا غالب کے بارے میں کوئی نہ کوئی تذکرہ ضرور شامل ہوتا تھا، جو فاروقی صاحب کی غالب شناسی اور غالب سے عقیدت کا ثبوت تھا۔
تنقید کے حوالے سے فاروقی صاحب کا خیال تھا کہ نقاد کے لیے قواعد و ضوابط سے واقفیت اور عمل لازمی ہے۔ شتر بے مہار قسم کے نقادوں سے انھیں چڑ تھی۔ وہ انھیں نقاد ہی نہیں مانتے تھے۔ کیونکہ محض تخلیق کاروں کے کیڑے نکالنا تنقید کا مطلب ہرگز نہیں۔ تنقید کا مطلب تنقیص نہیں ہو سکتا۔ شمس الرحمن فاروقی کا کمال یہ ہے کہ جہاں انھوں نے جدید تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے وہیں انھوں نے کلاسیکی قلم کاروں کی عظمت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ فاروقی صاحب جیسے نابغہ روزگار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
شمس الرحمن فاروقی کا نظریہ تنقید کے حوالے سے دیگر نقادوں سے مختلف تھا۔ ان کے نزدیک اردو زبان کے کلاسیکی شعرا کرام اپنی مثال آپ تھے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا خیال تھا کہ انگریزی زبان کے شعرا اور لکھاری انگریزی کے قلم کاروں کے ہمسر نہ تھے۔ مثال کے طور پر سرسید احمد خان نے انگریزی زبان کے شاعر ویلیم ورڈز ورتھ کو اردو شاعروں کے لیے ایک رول ماڈل قرار دیا تھا۔ اسی طرح ترقی پسند لوگوں کے نزدیک کلاسیکی شاعری کی جدید شاعری کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جدید شاعری ہی اصل اہمیت کی حامل ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک شاعری کو نہ تو کسی روایت کا پابند ہونا چاہیے اور نہ کسی مخصوص نظریے کا۔ ان کے خیال میں اچھی شاعری اور فکشن وہ ہے جو خود رو ہو اور جو فطرت کی ترجمانی کرتی ہو۔