طوفان سے آشنائی
حکومتی مشیروں اور وزیروں میں سے کوئی بھی انصاف، خود انحصاری اور انسانیت کی بات نہیں کرتا۔ ان کا سارا زور اداروں سے ٹکرائو، حکومتی اثاثہ جات کی فروخت اور آئی ایم ایف کے اہداف کے مطابق کام کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ان میں سے اکثریت کبھی کسی عوامی تحریک کا حصہ رہی نا انہوں نے کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا، نا ہی ان کو ملک سے غربت کے خاتمے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ ان وزیروں مشیروں کے تو اپنے کارپوریٹ اہداف ہیں جو ان کی دولت میں اضافہ کر سکیں۔ یہ صنعت کار اور سرمایہ دار پاکستان کے لئے بنے ہی نہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں، ان کے دھائیوں سے کھاتے کھلیں تو ٹیکس چوری، قرضے معاف کروانے اور کارکن کے حقوق غصب کرنے کے معاملات سامنے آئیں گے۔
عمران خان کی مانگے تانگے کی اکثریت ان کے گلے کا ہار بننے کے بجائے پاکستان کی گردن کا پھندا بنتی جا رہی ہے۔ یہ اکثریت تو عمران خان کے لئے دھاتی ڈور سے کم نہیں جو بلیڈ کی طرح تیز ہے، یہ مفاد پرست اور موقع پرستوں کا ٹولہ کبھی کسی حکمران کا وفادار ہو ہی نہیں سکتا، یہ تو اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ یہ لوگ صرف اس وقت تک ہی عمران خان کے ساتھ چلیں گے جب تک ان کا مفاد ہے، یہ عمران خان کے لئے ٹائم بم ثابت ہوں گے۔ پاکستان کی سیاست قومی مفادات پر استوار ہی نہیں، تاریخی طور پر بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ سیاست دان ہوں یا اسٹیبلشمنٹ ہر چیز مخصوص مدار میں گردش کرتی رہی ہے۔ سوائے ملٹری سکیورٹی کے معاشی، سیاسی اور جمہوری سکیورٹی کا تصور ہی موجود نہیں۔ پاکستان کی حالت ایک ایسے بھاری بھرکم جانور کی ہے جس کی اگلی ٹانگیں بڑی اور مضبوط ہیں مگر پچھلی ٹانگیں کمزور اور چھوٹی ہیں جو بڑی اور مضبوط ٹانگوں کے ساتھ دشمن سے لڑ سکتا ہے، دفاع کر سکتا ہے مگر اس کی کمزور ٹانگیں اس کے بھاری معاشی بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔
سینٹ الیکشن ایک ناقابل اعتبار اور پھسلن زدہ ماحول کا شکار ہیں جس پر عمران خان کھڑے ہیں اور یہی حقیقت ہے۔ اس کا طریقہ کار انتہائی بے رحمانہ، دھمکی آمیز، جلد باز ی، نمود و نمائش اور دکھاوے پر ہے۔ یہاں کچی پکی دھمکیوں کو ایک دوسرے تک پہنچایا جاتا ہے اور اگلے مرحلے پر ان کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان 178پر ناٹ آئوٹ ر ہتے ہیں۔ جب سے یہ گندی گیم شروع ہوئی ہے اس امر کا قوی امکان ہے کہ یہ بدرسم بڑی رغبت اور تواتر سے پہلے سے بھی زیادہ برے انداز سے دہرائی جائے گی۔ عمران خان نہ صرف اس وقت اپوزیشن کے لگڑ بگڑوں کے محاصرے میں ہیں بلکہ وہ اپنوں اور اس نظام کے ہاتھوں بھی محاصرے میں ہیں جس کی وہ قیادت کر رہے ہیں۔ یہ کھیل تماشا اور سرکس عمران خان کی مقبولیت کا باعث تو بن رہا ہے لیکن اس سے ان کی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ نیب، عدلیہ، الیکشن کمشن آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن اور کمپی ٹیشن کمیشن جیسے ادارے اعلیٰ قومی مفاد میں رہنمائی کی بجائے اپنی آزادی، خود مختاری اور نیم خود مختاری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق قانون کی تشریح کر رہے ہیں۔ اس طرح تو پھر ایک سپیشل کمیشن بننا چاہئے جو کابینہ کے سامنے جواب دہ ہو۔ گڈ مڈ اعداد و شمار اور غیر واضح معلومات نے کابینہ کو ایک منظوری دینے والی مشین بنا دیا ہے اور وضاحتوں سے مزید بے یقینی کی فضا جنم لیتی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان نے جب آئی ایم ایف کی مداخلت کو تسلیم کیا تو یہ بھی ایک نقطہ نظر تھا کہ اس سے اجتناب ممکن تھا بشرطیکہ ہم خود کو دریافت کرتے اور اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے۔ ایک بچے کی خواہش کی طرح جو پوری نہیں ہوتی آج پاکستان مالیاتی مشکلات، خسارے، درآمدات، برآمدات کے اشاریوں اور ادائیگیوں کے توازن جیسے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ یہ نظام اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ نچلی سطح سے کوئی اقتصادی انقلاب آنے کی توقع نہیں۔ غریب عوام موجودہ نظام اور آئی ایم ایف کے نرغے میں ہیں۔ انہیں کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا، جس پر عمران خان کا انحصار ہے۔ عمران خان کو ان رکاوٹوں کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ان کے نظریاتی مقاصد پس پشت جا رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوششیں بار آور نہیں ہو رہیں۔ موزوں ماحول پیدا کیے بغیر احساس پروگرام کی کامیابی کا تصور سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔ حیران کن طور پر پاکستان نے عمران خان کے دور میں ان جہتوں اور فورموں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں جن پر ماضی میں اس طرح کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ اس سلسلہ میں احساس پروگرام اور کوویڈ۔ 19مینجمنٹ ایک معتبر حوالہ ہیں۔
زراعت وہ شعبہ ہے جس کی طویل اور مختصر المدتی منصوبہ بندی کے لئے صرف زبانی کلامی دعوے کیے گئے۔ چین کی طرح زرعی انقلاب، جس کی بہت باتیں ہوتی رہی ہیں یہاں کبھی رونما نہیں ہوا۔ ایک ایسا ملک جس کی 8کروڑ 80لاکھ سے زائد آبادی دیہات میں رہتی ہو، جس کے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہو وہ اتنی غفلت کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کیونکر کر سکتا ہے۔ پاکستان سے باہر تو پاکستان میں زرعی انقلاب کی بہت باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن ملک کے بارے میں یہ صد ابصحرا ہی ثابت ہو ئی ہیں۔
اب وقت ہے کہ آگے بڑھاجائے اور اس سلسلہ میں اپوزیشن کی پیدا کردہ اور دیگر رکاوٹوں کی پروا نہ کی جائے۔ عمران خان کو اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھ کر قدم رکھنا ہو گا۔ انہیں چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں اپ سیٹ کرنا ہو گا اور پنجاب پر انہیں گرفت مضبوط کرنا ہو گی۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں نمایاں تبدیلیاں لانا ہوں گی اور آخر کار لوگوں کے سامنے ان کا اپناپاکستان پیش کرنا ہو گا۔ (ختم شد)