طوفان سے آشنائی (1)
جب عمران خان نے انصاف، خود انحصاری اور انسانیت کا نعرہ لگا کر اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی اس وقت شاید ان کو خود اندازہ نہ تھاکہ انہوں نے کس قد رکٹھن اور بھاری کام ذمے لیا ہے۔
ان دنوں پاکستان میں ناانصافی کا راج تھا، انتخابات پر سے عام آدمی کا اعتماد اٹھ رہا تھا اور منتخب اراکین بکائو مال بن چکے تھے، عام آدمی کی مشکلات اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔ ملک کی نظریاتی اور اخلاقی اقدار کی پامالی عروج پر تھی یہ 1996ء کے دن تھے۔
آج پاکستان جس قدر تیزی سے تنزلی کی طرف لڑھک رہا ہے وہ ہر کسی کے بخوبی علم میں ہے۔ عمران خان کرپشن سے تباہ حال نظام میں اصلاحات کے لئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کرتے ہیں تو جن الیکٹ ایبلز کے سہارے ان کے اقتدار کی کرسی کھڑی ہے وہ بیک فائر کر جاتے ہیں۔ سدا بہار اور مفاد پرست سیاستدانوں کے ساتھ وہ کس حد تک سمجھوتہ کر سکتے ہیں جلد یا بدیر ان کو فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔
عمران خان کی فولادی شخصیت میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک بحران کا مقابلہ کر سکیں مگر آخر کب تک؟ عمران خان نے شفافیت، انصاف اور خوشحال پاکستان کا جو خواب عوام کو دکھایا اور جس منزل کو پانے کا وعدہ کیا تھا اس منزل کے راستے میں ان کو بدعنوان مفاد پرست اور ضمیر فروش عناصر کا سامنا ہے اور وہ ان سے لڑتے اور سمجھوتے کرتے اخلاقی اور اور نظریاتی منزل سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ مخالفن کے خلاف اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے تو ایسا کرنے سے وہ کرپٹ نظام اور مخالفین کی خواہشات کے مطابق ہی کام کر سکیں گے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس گندے کھیل پر قابو پائیں اور اس موقع کو اپنے اہداف کے حصول کے لئے استعمال کریں۔ اس نازک وقت میں ان کو نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر ڈٹ جانا چاہیے۔ اشرافیہ جس نے اس کرپٹ نظام کی آبیاری کی ہے آج پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن کر سامنے آ چکی ہے۔ اس کی جڑیں اس نظام میں گہرائی تک پیوست ہیں اور اشرافیہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔
کرپٹ نظام کا نچوڑ پی ڈی ایم کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ کئی دھائیوں سے عمران خان کرپٹ اشرافیہ سے نمٹنے میں خود کو بے بس محسوس کرتے آ رہے ہیں۔ وہ روسو ازم سے متاثر ہیں اور آج بھی اس بات پر ان کا پختہ یقین ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر اب شاید انہیں اس بات کا احساس ہو گیا ہو گا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی کس قدر بے بس اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
امید ہے کہ اب انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہو گا کہ 2011ء میں تحریک انصاف کی چھتری پر اڑ کر جھنڈ کے جھنڈ کیوں بیٹھ رہے تھے، ان کو الیکٹ ایبلز کی فلاسفی ازبر کیوں کروائی جا رہی تھی۔ الیکٹ ایبلز کی پارٹی میں جگہ بنانے کے لئے عمران خان نے اپنے وفادار اور اہل افراد تک کو نظر انداز ہی نہیں پارٹی سے بھی نکال باہر کیا۔ نکالے جانے والوں میں ایسی قابل رشک شخصیات بھی تھیں جنہوں نے تحریک انصاف کی ریفارمز کا پہلے سو دن کا ایجنڈا تیار کیا تھا۔ اس بات کو ایک دھائی گزر چکی ہے مگر آج بھی دیر نہیں ہوئی یہ لوگ آج بھی موجود ہیں اور پارٹی سے دل و جان سے مخلص بھی ہیں۔ عمران خان کو مستقبل میں ان مخلص اور پارٹی سے وفادار لوگوں پر انحصار کرنا چاہیے۔
آج عمران خان کو حکومت چلانے اورسسٹم چلانے میں جن مشکلات کا سامنا ہے اس سسٹم میں ایسے سرکاری افسروں کی بھر مار ہے جن کو گزشتہ تین دھائیوں میں بھرتی کیا گیا۔ عمران حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افسران کی اکثریت اشرافیہ کے مفادات کی محافظ ہے۔ بدعنوانی اور مفاد پرستی پر استوار اس سسٹم میں عمران خان کی حیثیت ایک اجنبی سے زیادہ نہیں۔ نظام میں موجود قانونی موشگافیوں اور ضرورت سے زیادہ قواعد و ضوابط کی وجہ سے موجودہ نظام میں انقلابی فکر کے لئے جگہ ہی نہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے نظام میں اصلاحات لانا ممکن ہی نہیں کیونکہ جو ہاتھ کھلانے والا ہے وہ خود بھی کھانے والا ہے۔ اس وقت حکومتی صفوں میں ایسے افراد اور مشیر موجود ہیں جن کا بیانیہ ہی مفادات کے تضاد پر مبنی ہے۔
حکومتی مشیروں اور وزیروں میں سے کوئی بھی انصاف، خود انحصاری اور انسانیت کی بات نہیں کرتا۔ ان کا سارا زور اداروں سے ٹکرائو، حکومتی اثاثہ جات کی فروخت اور آئی ایم ایف کے اہداف کے مطابق کام کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ان میں سے اکثریت کبھی کسی عوامی تحریک کا حصہ رہی نا انہوں نے کبھی احتجاجی تحریک میں حصہ لیا، نا ہی ان کو ملک سے غربت کے خاتمے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ ان وزیروں مشیروں کے تو اپنے کارپوریٹ اہداف ہیں جو ان کی دولت میں اضافہ کر سکیں۔ یہ صنعت کار اور سرمایہ دار پاکستان کے لئے بنے ہی نہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں، ان کے دھائیوں سے کھاتے کھلیں تو ٹیکس چوری، قرضے معاف کروانے اور کارکن کے حقوق غصب کرنے کے معاملات سامنے آئیں گے۔ عمران خان کی مانگے تانگے کی اکثریت ان کے گلے کا ہار بننے کے بجائے پاکستان کی گردن کا پھندا بنتی جا رہی ہے۔ یہ اکثریت تو عمران خان کے لئے دھاتی ڈور سے کم نہیں جو بلیڈ کی طرح تیز ہے، یہ مفاد پرست اور موقع پرستوں کا ٹولہ کبھی کسی حکمران کا وفادار ہو ہی نہیں سکتا، یہ تو اپنے مفادات کے غلام ہیں۔ (جاری ہے)