امن کی یلغارآخر کیوں؟
حال ہی میں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے پاکستان اور بھارت میں بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں قیاس کیا گیا ہے کیا گیا ہے کہ بھارتی مشیر سلامتی اے کے ڈوول پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے براہ راست بات کر سکتے ہیں۔ یہ اسی پس پردہ ملاقات کا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے 25 فروری کوسیز فائر معاہدے پر عملدرآمد کرنے کا بیان جاری کیا تھا۔ بیک چینل رابطوں کا انکشاف پاکستان مں بھی معمہ بنا ہوا ہے۔ اس معمے کی وجہ سے پہلے تو دفتر خارجہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا، دوسرے پاکستان کے پالیسی ساز اداروں میں بھی ہیجان کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ اس لحاظ سے بھارتی میڈیا کا یہ پراپیگنڈا پاکستان کے لئے امن کے نام پر زہر قاتل ثابت ہوا ہے۔ ایک ڈپلومیٹ کے مطابق نئی میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 25فروری کے ڈی جی ایم اوز کے مشترکہ بیانیہ میں متحدہ عرب امارات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس طرح حالیہ دنوں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کیا گیا ہے کیونکر ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات اس حساس معاملے کو اس طرح پس پشت ڈال دے؟ یا پھر امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے جو پاکستان پر دبائو بڑھا رہے ہیں؟ سوشانت سنگھ نے فارن پالیسی کے لئے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اس سیز فائر پر عملدرآمد کی خبر میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہی اور اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ دونوں ممالک نے متنازع ایشوز پر جو خطہ کے امن کے راستے میں حائل ہیں اور تنائو کی وجہ بن رہے ہیں ان تمام پر مرحلہ وار مذاکرات کا اشارہ دیا ہے۔ حالیہ بیانات صرف دونوں ممالک کے چند مہینوں کے بیک ڈور رابطوں بشمول دونوں ممالک کی اعلیٰ سطح کی سیاسی قیادت یہاں تک کہ پاکستان کی عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے سے بھی ممکن نہیں ہو سکتے۔ پاکستان اور بھارت کے تنازعات کے ضمن میں حالیہ پیش رفت پر کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا۔ 22مارچ کو بلوم برگ نے رپورٹ شائع کی کہ پاکستان اور بھارت کے حالیہ سیز فائر کے سنگ میل تک پہنچنے اور خفیہ ملاقات کے لئے متحدہ عرب امارات نے مہینوں پہلے سے کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نڈ پرائس (ned price)سے پوچھا گیا کہ امریکہ کا پاکستان کو افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے کا کہنے کے علاوہ بھارت اور پاکستان کو قریب لانے میں بھی کوئی کردار ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ یقینا پاکستان کا افغانستان میں اہم کردار ہے اور اس میں دوسرے ایشو بھی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے ہم تمام پہلوئوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ حیران کن امر ہے کہ امریکی ڈوپلومیٹ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں تعمیری کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
گو بظاہر امریکہ یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کی ایشیا مرکزیت کی پالیسی انڈوپیسفک ریجن پر مرکوز ہو رہی ہے مگر امریکہ کی گریٹر مڈل ایسٹ پالیسی جو وسطی ایشیا تک محیط ہے، اس پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ کیا امریکہ کے لیے ایشیا مرکزیت سٹریٹجی جو افریقا سے اسرائیل، سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات اور عمان تک محیط ہے کو ترک کر دینا اتنا آسان ہے؟ جہاں تک امریکہ کے اس بیانیہ کا تعلق ہے کہ وہ سینٹ کام میں ڈائون گریڈنگ کر رہا ہے یہ درست ہے۔ میں پہلے بھی متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ امریکی سٹریٹجی میں سینٹکام کی حیثیت اس سخت فولاد کی ہے جس پر گرم لوہا کوٹا جاتا ہے جبکہ انڈوپیسفک کمانڈ اور بھارت کا اشتراک وہ ہتھوڑا ہے جو پاکستان اور چین کے مفادات پر برسایا جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ پیش رفت کے حوالے سے ذہن میں جتنے بھی سوال ابھریں ایک بات تو صاف ہے کہ اس میں امریکہ کی نئی انتظامیہ کا کلیدی کردار ہے۔ بائیڈن انتظامیہ پاکستان کے ساتھ دوبارہ پرانے تعلقات بڑھانا چاہتی ہے مگر خطہ کا توازن پہلے ہی چین کے حق میں ہے۔ اب امریکہ پاکستان کو ایسی کیا پیشکش کر سکتا ہے جو چین نہیں کر سکتا؟ کیا امریکہ کا یہ خیال ہے کہ وہ پاکستان کو بھلا پھسلا کر چین سے دور کر سکتا ہے؟ کیا یہ اتنا ہی آسان ہے؟ کیا پاکستان محض امریکہ کی خوشنودی کے لئے چین کے مفادات پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو جائے گا؟ اور وہ بھی ایسے دعوئوں اور بہلائوں پر جو ماضی میں فریب ثابت ہوئے ہیں؟
امریکہ کی پالیسی میں حالیہ تبدیلی کا مقصد بھارت کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کرنا اور پاکستان کے افغانستان میں کردار کو محدود کرنا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کو جنوبی ایشیا میں جس مشکل صورتحال کا سامنا ہے بھارت کو اس سے نکلنے میں مدد دے۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کو قریب لا کر بھارت کے لئے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے اسی لئے مرحلہ وار مذاکرات میں کشمیر کے بنیادی تنازع پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا کہ وہ بھارت کو سنبھلنے کے لئے وقت مہیا کرے تاکہ وہ خطہ میں اپنی سکیورٹی پوزیشن مضبوط کر سکے۔ امریکی پالیسی میں یہ تبدیلی نئی بوتل میں پرانی شراب کے مترادف ہے۔ اس عبوری مدت میں جب کہ پاکستان اور چین بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کو مسترد کر چکے ہیں بھارتی آئین کی شق 35اے بھی منسوخ ہو چکی ہے گو یہ متنازع معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، اس میں بڑی جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔
بھارت کو پہلے کشمیر کی سابق پوزیشن بحال کرنا ہو گی جس کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے براہ راست تعلق ہے۔ بھارت یک دم جو اس طرح پگھل رہا ہے اور چین کے ساتھ لداخ کے معاملے میں جو نرمی دکھا رہا ہے اس کی بھی وجوہات ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور عالمی دبائو کو زائل کرنے کے لئے بھارت کو وقت کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی انڈوپیسفک پالیسی کی ترجیحات طے کرنے کے لئے بھی وقت درکار ہے۔ ماضی میں سابق صدر مشرف نے بھارت کے ساتھ سیز فائر کا جو معاہدہ کیا تھا بھارت اس کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ اس کا مقصد بھی اہداف کا حصول تھا جو بھارت نے مقبوضہ علاقوں کو بھارت میں ضم کر کے حاصل کر لئے۔ اپنے اہداف کے حصول کے لئے بھارت نے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا اور پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا پراپیگنڈا کر کے پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے میں کامیاب رہا۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس نئے مواقع تلاش کرنے کا جواز ہی کیا رہ جاتا ہے؟ ڈپلومیسی میں ممالک کے درمیان رابطے کبھی ختم نہیں ہوتے بھارت اور پاکستان کے درمیان ڈی جی ایم اوز کے ہاٹ لائن پر رابطے کے علاوہ دونوں ممالک کے ہائی کمشنر بھی موجود ہیں، اعتماد سازی کا عمل ہنوز جاری و ساری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتکاری کا آپشن موجود ہے تو پھر بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کی کیا ضرورت ہے؟ حالیہ پیش رفت کے افغانستان کی صورتحال پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا افغان طالبان روس میں چار ملکی کانفرنس کے بعد اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ مزید یہ کہ بھارت کا کردار کیا ہو گا؟ کیا بھارت افغانستان سے پاکستان کے خلاف پراکسیز بند کر دے گا؟ کیا بھارت نواز افغانیوں داعش اور بی ایل اے سمیت پاکستان مخالف عناصر کی معاونت ختم کر دے گا؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کو وہ سب کچھ دے سکتا ہے جو پاکستان چاہتا ہے؟
اس صورت حال میں پاکستان کو مرکزی ریاست کی حیثیت سے حالات کا محتاط انداز میں جائزہ لینا ہو گا، خاص طور پر جب پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا احتمال ہو اور ایران سے تعلقا ت میں جو بہتری آئی ہے وہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ ان حالات میں پاکستان کو پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا خاص طور پر سٹیٹ بنک کی خود مختاری، بین الاقوامی تعلقات اور غیر ملکی قرضوں سمیت اندرونی خلفشار سے بچنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی جو پاکستان کی خود مختاری اور خود انحصاری میں حائل ہو سکتی ہیں۔ امریکہ نے پاک بھارت مذاکرات کا زہر آلود دانا ڈالا ہے۔
پاکستان کی حالیہ سیاسی کشیدگی اس نئی منصوبہ بندی کا حصہ ہو سکتی ہے جو پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے، کھیر کا مزا پکانے میں نہیں کھانے میں ہے۔