وہ جو ایک دنیا بسائی تھی ترے نام پر کوئی اور تھی
25اپریل کو پاکستان تحریک انصاف کا یوم تاسیس منایا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی اور اپنی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ وہی مخصوص جملے بولے جو ان کے لاشعور پر گزشتہ بیس سال سے نقش ہیں اور اب اتنی بار دہرائے جاچکے ہیں کہ سننے والوں کو سوائے سمع خراشی کے اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمیں ناصر کاظمی بے طرح یاد آئے کہ جس نے آرزو کی تھی کہ
چاہتا ہوں کہ مرا قصہ شوق
آج میرے سوا کہے کوئی
لیکن اس قصہ شوق کو اگر کوئی دہراتا تو وزیراعظم میں اسے سننے کی تاب نہ ہوتی۔ یہ ایک عشق میں رسوا ہونے کا قصہ ہے جس میں چاہنے والے خود تماشا ہو چکے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں سے مایوس لوگوں نے ایک نئے خواب سے امیدیں وابستہ کی تھیں اور اس خواب کا نام عمران خان تھا۔ جدوجہد کا آغاز ہوا تب خوابوں کی اٹھان اور امیدوں کے جہان اور ہی رنگ ڈھنگ کے تھے۔ عمران خان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ انہیں ملک میں ایک چاہے جانے والے ہیرو کا درجہ حاصل تھا عمران خان کی شخصیت کا کرزما پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی اپنا اثر دکھاتا۔ پوری دنیا کا میڈیا عمران خان کا تعاقب کرتا۔ ورلڈکپ جیتنا پھر شوکت خانم ہسپتال کے خواب کو تعبیر دینا اس کے کریڈٹ پر تھا۔ اس پس منظر کے ساتھ عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سیاسی جماعتوں سے مایوس پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان خوابوں پر یقین لے آئی جو تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے لوگوں کو دکھائے بیس سال کی جدوجہد کے بعد 30 اکتوبر 2011ء کا دن مینار پاکستان پر ایک شاندار جلسہ صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف چلی کی گونج میں ایک بہتر اور شفاف نظام کی خواہش کی بازگشت پاکستانیوں کے دلوں کو گرماتی تھی۔
پھر 2014ء کا دھرنا پاکستان کے تمام چینلز کا تحریک انصاف کے دھرنے کی دن رات کوریج اور عمران خان کی کنٹینر پر کی گئی تقریروں کی بلاتعطل تشہیر نے ایک ایسا سماں بنا دیا کہ تحریک انصاف سے وابستہ لوگوں نے ایمان کی حد تک سوچ لیا تھا کہ یہ جماعت برسر اقتدار آئی تو پاکستان کو بدل کر رکھ دے گی۔
اس یقین کے پیچھے عمران خان کی کنٹینر پر کی گئی تقریروں کا کردار اہم تھا جس میں وہ گزشتہ برسوں میں برسراقتدار رہنے والی دونوں جماعتوں میں مسلم لیگ اورپیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے اور لوگوں کو وہ یقین دلاتے کہ برسراقتدار آکر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ غریب اور امیر کے لیے ایک پاکستان ہوگا وہ لوگوں کو یقین دلاتے اوپر ایک شخص دیانت دار ہو تو نیچے پورا سسٹم خودبخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ عمران خان دیانتدار ہے صرف عمران خان برسراقتدار آ جائے تو ایک رات میں پورا پاکستان کرپشن فری ہو جائے گا۔ عمران خان دعوے سے کہتے کہ اگرتحریک انصاف برسراقتدار آئی تو بیرون ملک بسنے والے پاکستانی ڈالروں کی بارش کر دیں گے اور ایک ہی رات میں پاکستان کے قرض کو اتار پھینکیں گے۔ عمران خان نے یقین دلایا تھا کہ وہ کشکول کو توڑ دیں گے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس قابل اور بہترین ٹیم موجود ہے۔ ان کی تیاری مکمل ہے اور وہ سودن کے اندر گلے سڑے نظام کو ٹھیک کردیں گے۔
اس طرح کے بلند و بانگ دعوے کر کے تحریک انصاف شہر اقتدار میں آئی تو پتہ چلا ہ کنٹینر پر کی جانے والی تقریریں ویسے ہی جھوٹے وعدے اور کھوکھلے دعوے تھے جیسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں باقی سیاسی جماعتوں کے رہنما اقتدار میں آنے کے لئے کرتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو ہر قدم پر عمران خان کے دعوؤں اور خوابوں کے شیش محل کھڑے تھے، بطور وزیراعظم عمران خان نے اپنے ہی کہے ہوئے لفظوں اور دعووں سے ہر قدم پر رو گردانی کی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یوٹرن کی ایک نئی روایت قائم کی۔ 18اگست 2021ء کو عمران خان کی حکومت کوتین سال پورے ہو جائیں گے ان تین برسوں میں ابھی تک حکومت کی سمت درست نہیں ہوسکی۔
خود فریبی اور خوش فہمیوں کاعالم یہ کہ تقریروں اور پریس کانفرنسز میں آج بھی عوام کی زندگیا ں بدلنے کے جو دعوے کیے جارہے ہیں وہ حقیقت میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ حالت یہ ہے رمضان المبارک کے مہینے میں پاکستانی بڑی تعداد قطاروں میں لگے اشیاء ضرویہ کے حصول کے لیے خوار ہورہے ہیں۔ صرف سستی اشیاء ضروریہ خریدنے کے لئے خریدار کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں گرمی کے موسم میں سفید پوشوں روزہ داروں کو خریداری کے لیے جس ذلالت سے گزرنا پڑتا ہے ہماری حکومت اسے غریب پروری کا نام دیتی ہے۔ آج کی اخبار میں آدھے صفحے پر شائع شدہ اشتہار ملاحظہ فرمائیں۔ وزیر اعظم کا عوام دوست ویژن عوام کے سحر و افطار کو باسہولت بنانے کے لئے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف زیرو ٹالرنس۔ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کسی قیمت پر برداشت نہیں کی جائے گی وغیرہ وغیرہ!
تحریک انصاف کی 25 سال کی جدوجہد حکومت میں آنے کے بعد ہر نئے دن ایک نئے یوٹرن کی عبرت انگیز داستان ثابت ہورہی ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ وہ گھر جس کا نام تحریک انصاف ہے اس کے مکینوں کے آپس کے جھگڑے اور رنجشیں گھر کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ وزیراعظم خوش فہمی اور خود فریبی کے قلعے میں محصور اس بدلے ہوئے منظر کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تحریک انصاف اپنی اٹھان اور اڑان کے کے عروج کے بعد شکست خوردگی کے ایک تکلیف دہ دور سے گزر رہی ہے۔
وہ فضائے ناز کوئی اور تھی کسی خواب صبح جمال کی
یہ جو ایستاد ہ راہ شام زوال ہے کوئی اور ہے
وہ جو خواب خوش کے تھے ولولے کہ جہان فتح کریں گے ہمکوئی اور تھے
یہ شکست ذات کے مرحلے یہ ہزیمتیں کوئی اور ہیں۔۔۔ !
وہ جو ایک دنیا بسائی تھی ترے نام پر کوئی اور تھی
یہ جو حسرت درو بام ہے یہ جو زرد رو مری شام ہے کوئی اور ہے۔۔۔ !