وبا کے موسموں میں بھی محبت کر رہے ہیں
جب دنیا پر وبا کے موسم کی حکمرانی تھی۔ گلیوں، کوچوں، بازاروں اورشاہراہوں پر خوف کے زرد موسم تنے ہوئے تھے۔ ایک پراسرار آسیب سے شہر کے شہر اجڑ رہے تھے۔ ہاں اسی موسم میں ننانوے برس کے یاور عباس اور ستر برس کی نور ظہیر نے اپنے دل کے شہر کو بسانے کی سعی کی اور دنیا کو حیران کر دیا۔
معروف روایتوں میں تو عمر کے اس پہر میں جب شام ہونے لگتی ہیں، زندگی واپسی کے سفر کا سامان باندھ رہی ہوتی ہے مگر محبت کرنے والوں نے عمر کے اس پہر میں ایک حیران کن امید کے ساتھ زندگی کے نئے سفر کا آغاز کیا۔
عالمی گائوں کے باسیوں کو یہ خبر اس وقت ملی جب ہر طرف سے کرونا وائرس کی ناقابل بیان تباہی کی خبریں آ رہی تھیں۔ فیشن، گلیمر اور حسن کا شہر اٹلی اجڑ چکا تھا، 6 کروڑ لوگ، اپنے گھروں میں قرنطینہ کیے بیٹھے تھے۔
یہاں میرے وطن پاکستان میں بھی، خوف، خدشوں اورسہم کی حکمرانی ہے اور پھر لندن جہاں یاور عباس نے نور ظہیر کے ساتھ زندگی کے نئے سفرکا آغاز کیا، وہاں پر بھی ہر سو خوف، موت، اور ہیجان کی کیفیت طاری تھی۔
وبا کے ایسے موسم میں جب زندگیاں دائو پر لگیں ہیں۔ منحوس خبروں کا ایک ہجوم ہے اور ایسے ہجوم میں آخری عمر کی اس محبت اور شادی کی خبر نے ہم سب کو حیران کیا اور اتنا حیران کہ میں نے اپنے رائٹنگ پیڈ پر بے ساختہ یہ شعر لکھا:
فضائے خوف میں بھی اتنی جرأت کر رہے ہیں
وبا کے موسموں میں ہم محبت کر رہے ہیں
میں سوچتی رہی کہ صرف محبت ہی میں وہ طاقت ہے جو خوف کو شکست دے سکتی ہے۔ محبت فاتح عالم ہے۔ ! جو بھی کچھ ہے، محبت کا پھیلائو ہے۔ امجد اسلام امجد کی نظم کا مصرعہ ہے اور ساتھ ہی امجد صاحب کی کہی ہوئی تین مصرعوں کی بلیغ نظم یاد آئی۔
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا!
وبا کے موسم میں محبت کی اس کہانی کو دیکھیں تو اس نظم کے اور بھی گہرے معنی آشکار ہوتے ہیں۔ محبت اپنی فضا خود بناتی ہے، وہ اپنے موسم اور اپنے پہر تخلیق کرتی ہے۔ وباء کے موسم میں بھی زندگی کے آخری پہر میں جب یاور اور نور ایک ہوئے تو ان کی محبت نے خوف کی فضا میں ہی کیٹس کے نغموں کی نرماہٹ پیدا کر دی اور وبا کا زرد موسم فیض کے مصرعے میں ڈھل گیا۔
گیبریل گارشیا مارکیز کا شکار ناول love in the time of cholera یاد آتا ہے۔ اس کے لازوال کردار فلورن ٹینو اور ناول کی ہیروئن ضرمینا ڈیزا۔ جو نوجوانی کے دنوں میں اپنی محبت نہیں پا سکتے اور پھر زندگی کے مختلف سنگ میل عبور کرتے کرتے حالات واقعات کے مدوجذر سہتے۔ ایک بار پھر اکٹھے ہوتے ہیں تو محبت ان کے عمر رسیدہ دلوں میں ایک دیے کی طرح آنچ دے رہی ہوتی ہے۔
ننانوے سالہ یاور عباس اور نور ظہیر کی کہانی کا پس منظر تو ہمیں معلوم نہیں کہ دونوں کے دلوں پر کب محبت کی بارش برسی۔ مگر وہ کہانی جو انہوں نے دنیا کو بتائی وہ بھی بہت دلچسپ ہے اور پوری دنیا میں اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے شادی کی تاریخ 27 مارچ طے کی تھی۔ مگر کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال میں جب لندن میں مریضوں اور اموات کی تعداد بڑھنے لگی تو سرکاری حکام کے مطابق عمر رسیدہ بوڑھے افراد کو لازمی طور پر سماجی دوری اختیار کرنا تھی۔ چونکہ دونوں عمر رسیدہ ہیں تو یہ پابندی لازمی طور پر دونوں کے لئے تھی۔ دونوں کے درمیان ظالم سماج کے آنے کے امکان تو نہیں تھے لیکن وبا کے موسم کی احتیاطی اور حفاظتی تدابیر، دونوں کے درمیان حائل ہو سکتی تھیں۔ اسی تناظر میں محبت کرنے والوں نے چھ قریبی دوستوں کی موجودگی میں نکاح کیا اور شادی کا اعلان کر کے خدشوں اور خوف میں گھری ہوئی دنیا کو حیران کر دیا۔ ان کی ایک قریبی دوست دردانہ انصاری کا کہنا ہے کہ دونوں اس فیصلے کے بعد اس قدر مطمئن اور خوش تھے کہ بیان سے باہر ہے۔ یاور عباس زندگی کی ایک صدی گزارنے کے بعد خوش امیدی اور یقین کے جس مقام پر ہیں مجھے تو وہ حیران کرتا ہے۔ بات صرف اس عمر میں ایسے وبا کے موسم میں شادی کرنے کی نہیں بلکہ یہ ان کی زندگی کی طرف ان کے مجموعی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ زندگی کو زندگی کی طرح جینے کا ہنر یہی ہے ہر پل خوش امید رہا جائے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہی تھی تو میرے آس پاس خدشوں اور خوف سے بھری ہوئی خبروں کا ہجوم ہے۔ شہر پر وبا کے موسم کی حکمرانی ہے۔ خلق خدا ایک عجیب عذاب میں مبتلا ہے۔ میرا قلم یوں بھی دکھوں، تکلیفوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور پھر لفظوں کی صورت کاغذ پر انڈیل دیتا ہے۔ لیکن آج میں نے دانستہ اس موضوع کا انتخاب کیا۔ ننانوے سالہ یاور عباس اور نور ظہیر کی یہ کہانی، پوری دنیا کو خوف کے اس زرد موسم میں خوش امیدی کا پیغام دے رہی ہے اور یہی خوش امیدی اور یقین وہ ہتھیار ہے جس سے ہم بیماری، خوف اور تکلیف کی ہر جنگ جیت سکتے ہیں۔ حالات خواہ کیسے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں، خواب دیکھنا نہیں چھوڑتے۔ خوف کو خوش امیدی اور یقین سے شکست دینی ہے۔ اپنے ایک شعر کے ساتھ اجازت:
خزاں کے زرد ہاتھ میں ہو پیرہن بہار کا
یہ معجزہ بھی اب کے میرے موسموں کو دان ہو