طفیل صاحب المعروف پا طفیل
صحافت میں اپنی طویل ترین اننگ کھیل کر 90سالہ طفیل صاحب بھی اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ ایم طفیل صاحب اپنے نام سے زیادہ صحافتی حلقوں میں پا طفیل کے نام سے مشہور تھے۔ آج بھی بیشتر لوگ انہیں پا طفیل ہی کے نام سے پکارتے تھے۔ صحافت میں میری پہلی ملازمت ڈیوس روڈ پر واقع ایک اردو روزنامے میں بطور سب ایڈیٹر میگرین کے ہوئی۔ میگزین کا کمرہ اس دفتر کی عمارت کے دوسرے فلور پر واقع تھا۔ اس فلور پر شیشے کی پارٹیشن کے ساتھ اخبار کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کے لیے کمرے بنائے گئے تھے۔ سیڑھیوں کے دائیں جانب آتے ہی کوریڈور کے ساتھ پہلا کمرہ اخبار کے میگزین کا تھا کشادہ کمرے میں میرے ساتھ فاخرہ تحریم، وکیل انجم اوراعجاز بٹ بھی بیٹھا کرتے تھے۔ ہمارے کمرے کے ساتھ شیشے کی دیوار کے پار ایک بھلے مانس درویش صفت بزرگ اپنے کام میں منہمک دکھائی دیتے، یہی بزرگ طفیل صاحب تھے، جو اخبار کا اداریہ لکھا کرتے تھے۔ برسوں ان کا کمرہ اخبار کے دفتر میں میرے کمرے سے متصل رہا۔ ایڈیٹوریل کا آفس تھا، جس میں طفیل صاحب کے ساتھ مرحوم انور قدوائی بھی کمرہ شئیر کیا کرتے تھے۔ طفیل صاحب درویشانہ مزاج رکھتے تھے۔ لباس وانداز میں انتہائی سادہ اطوار تھے، جسامت قدرے بھاری، قدوقامت دبتی ہوئی تھی جبکہ انور قدوائی صاحب طویل قامت تھے۔ وہ سلک کے کڑھائی والے کرتے پہنتے یا کلف لگی ہوئی کاٹن کی شلوار قمیص جن کے گلے خوب صورت کشیدہ کاری سے سجے ہوتے۔ دونوں کے مزاج میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔ طفیل صاحب نو واردانِ چمن کا حوصلہ بڑھانے والوں میں سے تھے۔ قدوائی صاحب ایڈیٹوریل کے اس کمرے میں کم کم بیٹھا کرتے، زیادہ تر وہ پہلے فلور پر مرحوم مرزاشفیق صاحب کے نہایت مختصر سے کمرے میں پائے جاتے۔ جن دنوں میں نے اخبار جوائن کیا، انہی دنوں میں اخبار میں الیکشن سیل قائم تھا اور عارضی کام کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ہجوم اس فلور پر پایا جاتا۔ الیکشن ہو گئے تو عارضی کام کرنے والوں کادفتر آنا بند ہوگیا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں ایک روز مجھے بھی ریسیپشن پر روک لیا گیا اور کہا کہ الیکشن سیل تو ختم ہوگیا ہے، اس لیے آپکا دفتر میں داخلہ بند ہے۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے، اپنے فلور پر آتے ہوئے میں نے اسی درویش صفت بزرگ طفیل صاحب کو دیکھا اور سلام کیا۔ وہ مجھے کہنے لگے بیٹا تسی تے الیکشن سیل اچ کم کردے سو تواڈی اخبار وچ جاب ہوگئی اے؟ طفیل صاحب عموماً پنجابی میں ہی بات کیاکرتے تھے، اس روز میں نے انہیں بتایا کہ میں الیکشن سیل میں نہیں آئی تھی بلکہ میری یہاں پر باقاعدہ جاب ہوئی ہے۔ یہ سن کر انہوں نے نیک تمناوں کے ساتھ خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔ میرے لیے ہمیشہ وہ ایک پر شفقت بزرگ جیسے تھے وہ ہمیشہ ہی مجھے بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ مجھے جب بھی کسی رہنمائی کی ضرورت پڑتی وہ بڑے خلوص سے رہنمائی کرتے۔
کبھی کسی ایشو پر کچھ جاننا ہوتا، تو میں طفیل صاحب سے بلا جھجھک پوچھ لیتی تھی۔ ورنہ اخبار میں کام کے دوران میں نے یہ بھی دیکھا کہ پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے۔ خوش قسمتی کہیے یا کچھ اور لیکن مجھے آغاز ملازمت میں ایسے کئی تلخ تجربات ہوئے کہ جب اخبار میں کام کرنے والے سینئر ترین بزرگ کولیگ نے میرے کالم لکھنے پر نہ صرف اعتراض کیا کہ ایک جونیئر سب ایڈیٹر ادارتی صفحے پر کس طرح کالم لکھ سکتی ہیں، بلکہ در پردہ ایسی کوششیں بھی کیں کہ کالم کی تعداد کم ہو جائے یا پھر ادارتی صفحے پر کالم چھپنا بند ہو جائے۔
لاہور آفس میں آنے والے تمام کالم کراچی ہیڈ آفس بھیجے جاتے، جہاں ایڈیٹوریل کی ٹیم ان کو اپروو کرتی اس کے بعد ہی کالم اخبار میں چھپا کرتے۔ ہوا یہ کہ مجھ سے کالم لے کر رکھ لیا جاتا، کراچی آفس نہ بھیجا جاتا، جس سے کراچی آفس میں یہ تاثر جا رہا تھا کہ میں اپنے مقررہ دنوں میں کالم لکھ ہی نہیں رہی، یہ بات میرے علم میں نہیں تھی، سو پہلے میرے کالموں کی تعداد کم کی گئی، پھر ایک روز مجھے کالم لکھنے سے روک دیا گیا۔ میرے لیے یہ پریشان کن بات تھی میں ایک جونیئر صحافی تھی، اس درپردہ سازش کی مجھے سمجھ نہ آئی کہ کس سے بات کروں، میں نے اس بات کا تذکرہ طفیل صاحب سے کیا۔ انہوں نے ایک شفیق بزرگ کی طرح میری بات توجہ سے سنی۔ اس دشت کی سیاحی میں وہ عمر گزار چکے تھے، دفتری سازشوں اور حسد پر مبنی ریشہ دوانیوں کو مجھ سے کہیں بہتر سمجھتے تھے۔ میں نے ساری بات بتائی تو وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ تذکرہ تو میں نہیں کروں گی، تاہم مجھے معلوم ہو گیا کہ اسکے پیچھے کون سی شخصیت ہے۔ میں فطری طور پر دل برداشتہ تھی۔ اس وقت طفیل صاحب نے مجھے بہت حوصلہ دیا اور کہا کہ آپ اچھا لکھتی ہیں۔
صحافت میں ان کا کیریئر ساٹھ سالوں پر محیط ہے وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز نسیم حجازی کے زیر ادارت اخبار کوہستان سے کیا۔ مساوات میں بھی کام کیا کیا۔ 1981ء میں روزنامہ جنگ جوائن کیا ہے اور اخبار کا پہلا ایڈیٹوریل طفیل صاحب نے لکھا ہے۔ کالم لکھنے کے دوران فون پر میری بات ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی صاحب سے ہوئی وہ بھی مرحوم کی خوبیوں کو یاد کرتے رہے اور صحافت میں ان کی ڈیڈیکیشن اور ان کی نظریاتی وابستگی کی تو صیف کرتے رہے۔ عمر کے بڑھتے ہوئے مسائل کے باعث کچھ سالوں سے وہ باقاعدہ دفتر نہیں آرہے تھے اور ایڈیٹوریل لکھنا چھوڑ چکے تھے لیکن اب بھی ہفتہ وار کالم روزنامہ آواز میں لکھا کرتے تھے۔ یوں انہوں نے اپنی عمر کی آخری سانس تک صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ میں نے برسوں ان کو اپنے کام میں منہمک دیکھا یا پھر نمازوں کے اوقات میں خضوع خشوع سے نمازیں ادا کرتے ہوئے دیکھا۔ ادارتی نوٹ لکھنے کے بعد وہ اکثر قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے۔ کیسی سیدھی اور اجلی زندگی گزار گئے۔ وہ ادارتی صفحے کی صحافت میں ایک بڑا اور مستند نام تھے۔ مگر میرے لیے طفیل صاحب دل برداشتگی کے کمزور لمحوں میں حوصلہ دینے والے شفیق بزرگ جیسے تھے۔ اللہ کریم اس درویش صفت کو اپنی دائمی رحمتوں میں آسودہ رکھے۔ آمین