سوشل میڈیا کتاب کا نعم البد ل نہیں!
ایک ای میل تھی جس میں ایک نوجوان نے لکھا کہ وہ لکھاری بنناچاہتا ہے اور رہنمائی درکار ہے۔ میں نے جوابی ای میل کی اور اس سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ پچھلے چھ مہینے میں آپ نے کون کون سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟ اس بنیادی سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، سوائے اس کے کہ میں فیس بک پر فلاں فلاں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو فالو کرتا ہوں، ان کی تحریریں با قاعدگی سے پڑھتا ہوں۔
مجھے اس بات پہ حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ آج کل لوگ مطالعے جیسی تخلیقی سرگرمی اور فیس بک پر مختلف پوسٹیں نظر سے گزارنے کو ایک ہی کیٹیگری تصور کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وقت گزاریں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا لکھنے کی طرف رجحان ہے تو اس صلاحیت کو نکھارنے کے لیے سب سے پہلا کام اپنے مطالعے کو بڑھانا ہے۔ جب میں کہتی ہوں کہ اچھی تحریریں پڑھیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سوشل میڈیا پر موجود پوسٹیں پڑھ کر سمجھیں کہ آپ نے اپنے مطالعے کا کوٹہ پورا کر لیا ہے۔ جتنے عمدہ لکھاری آپ بننا چاہتے ہیں اتناہی عمدہ ادب آپ پڑھیں۔ میں تو یہ کہوں کہ تاریخ، فلسفہ، سیاست، سماجی موضوعات پر بھی پڑھتے رہنا ضروری ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی بعض اوقات اچھی تحریریں نظر سے گزرتی ہے۔ یہاں زندگی کے مختلف زاویوں کو مختلف مسائل پر بہت کھل کر لکھا جاتا ہے۔ بیشتر اوقات سطحی پوسٹیں، سیلفیاں، دوسروں کو اخلاقیات سکھانے پر مبنی تحریریں اور تصویریں نظر سے گزرتی ہیں۔ آپ ان گنت پوسٹوں کو سکرول ڈاؤن کرتے ہوئے ہر اچھی بری، الٹی سیدھی، بھانت بھانت کی تحریروں کو نظر سے گزارتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمی میں آپ کو کبھی بھی یکسو نہیں ہوسکتے۔
سو شل میڈیا پر پوسٹیں پڑھنا اور ایک اچھی کتاب کا مطالعہ کرنا اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب ہم پڑھنے کیلئے کتاب اٹھاتے ہیں تو اپنی توجہ کا ربط آس پاس سے توڑکرخود کو کتاب کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ کتاب اگر آپ کے ذوق کی ہے تو کتاب میں لکھا ہوا ہر لفظ آپ کے تخیل پر ایک تصویر بناتا جائے گا کتاب اپنی خوشبو سمیت آپ کی احساس میں اتر جائے گی۔ کتاب کو ہاتھ میں پکڑنا اور اس کے حروف پر نظر جما کراس میں بیان کی گئی دنیا کا حصہ بننا ایک اور ہی طرح کا لطف ہے۔
2013 میں برطانیہ میں ایک ریسرچ ہوئی جس میں کچھ افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک میں کتاب پڑھنے کے شائق لوگ تھے ان کو ایک دلچسپ ناول پڑھنے کو دیا گیا پھر دونوں گروپوں کے افراد کا برین ایم آر آئی اسکین سے گزارا گیا۔ دیکھا یہ گیا کہ جنہوں نے ناول پڑھا تھا ان کے دماغ میں ایسے ہارمونز ز موجود تھے جس سے انسان کو خوشی اور سکون کا احساس ہوتا ہے اور جنہوں نے کتاب نہیں پڑھی تھی ان کے دماغ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا صرف فیس بک کی پوسٹیں، وٹس ایپ پر آنے والی تحریریں اور ٹوئیٹس پڑھنے والے لوگ بھی اس تبدیلی سے گزرتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہے نہیں! کیونکہ انہیں وہ یکسوئی اور توجہ درجہ حاصل نہیں ہوتی اور مختلف طرح کے خیالات پر مبنی پوسٹیں پڑھتے ہوئے ان کا دماغ یکسو نہیں ہوتا بلکہ بھانت بھانت کی پوسٹیں دیکھ کر اور منتشر ہو جاتا ہے، اسی لیے سوشل میڈیا پر موجود مواد پڑھنا ریڈنگ تھیوری کے مطابق تخلیقی سرگرمی میں نہیں آتا۔
لیکن ایسا تب ہوگا جب بہت کتابیں پڑھیں گے۔ اگر آپ کوئی پسندیدہ کتاب پڑھ رہے ہوں تو آپ نہیں چاہیں گے اس وقت کوئی فون کال آئے، دروازے کی گھنٹی بجے یا پھر کوئی آکر آپ کے ہاتھ سے کتاب چھینے اور آپ کو بے معنی گفتگو کے ریشم میں الجھائے یا کسی گرما گرم مباحثے میں گھسیٹے۔ مطالعے کا یہ انداز سوشل میڈیا پر پڑھی جانے والی پوسٹوں سے یکسر مختلف ہے۔ جہاں آپ پڑھتے ہوئے کمنٹ بھی کرتے ہیں لائک بھی کرتے ہیں کہ کسی پوسٹ پر ہنسنے والی ایموجی ٹکائی کہیں رونے والی ایموجی لگائی۔ کسی پوسٹ پر مباحثے میں الجھ گئے کہیں جھوٹی سچی تعریفوں کے پل باندھنے پڑے۔ اب اس ساری سرگرمی میں مطالعے کی صورت میں ہونے والی یکسوئی کیسے ممکن ہے؟ ا س میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا آج کے دور کی ایک حقیقت ہے اور ہم یہاں بہت کچھ سیکھتے ہیں، معلومات حاصل کرتے ہیں لیکن یہ سب کچھ کتاب پڑھنے کا متبادل نہیں۔ کتاب پڑھنا تخلیقی عمل ہے جو آپ کے ذہن کو تخیل کی جاگ لگاتی ہے۔
دنیا بھر کے کے ذہنی امراض کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ آدھا گھنٹہ اچھی کتاب پڑھنے سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے، آپ کا بلڈ پریشر نارمل ہوتا ہے، انزائٹی کم ہوتی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے کے اضافی فائدے ہیں۔ اپنے ذوق اور شوق کے مطابق کتابوں کا مطالعہ کریں . کتاب کا مطالعہ کبھی بھی سوشل میڈیا پر پڑھی جانے والی پوسٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اخبارات میگزین اچھی کتابیں جو ہاتھ لگے جس موضوع پر ہو، اسے پڑھیں پھر رفتہ رفتہ آپ کا ذوق خود پروان چڑھنے لگے گا آپ جان جائیں گے کہ کن موضوعات پر لکھی ہوئی کتابیں آپ کواپنی جانب کھینچتی ہیں۔ پڑھتے پڑھتے آپ اتنا کچھ جذب کرلیں گے تو خود بخود آپ کے اندر ہمکتے ہوئے خیال الفاظ میں ڈھلنے لگیں گے۔
کورے گھڑے میں پانی ڈالیں تو رفتہ رفتہ گھڑا اتنا پانی اپنے اندر جذب کر لے گا کہ پیندے سے پانی رسنا شروع ہو جائے گا۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہنا بھی لکھاریوں کے لیے اپنے احساس کے گھڑے میں پانی بھرنے جیساعمل ہے۔ سو اپنے گھڑے کو بھرتے رہیں اسے خشک نہ ہونے دیں۔ سوشل میڈیا پر وقت گزاریں مگر یہ فرق ہمیشہ ذ ہن میں رہے کہ بھانت بھانت کی پوسٹیں پڑھنا، کمنٹ کرنا، فارورڈ کرنا، شئیر کرنا، توجہ کاخیمہ لگا کرانہماک سے مطالعہ کرنے کا متبادل نہیں ہے۔