Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Hassan
  4. Ghair Mamooli Shakhsiat Kaise Banen

Ghair Mamooli Shakhsiat Kaise Banen

غیر معمولی شخصیت کیسے بنیں

مسائل اور مشکلات کا سامنا کس کو نہیں ہوتا لیکن اس بھنور سے وہی لوگ باہر نکل پاتے ہیں جو مضبوط اعصاب کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ اور رویے رکھتے ہیں۔

ہمیں کامیاب لوگ نظر تو آتے ہیں اور ہم ان سے مرعوب بھی ہو جاتے ہیں، دل ہی دل میں سوچتے ہیں کہ اِس مقام تک پہنچنا تو میرا بھی خواب تھا۔ میں نے محنت تو بہت کی لیکن اُس طرح کامیابی نہیں ملی، میں زندگی میں کچھ کر ہی نہیں پایا، میری قسمت نے ساتھ ہی نہیں دیا۔ ہم دل ہی دل میں حسد پال لیتے ہیں۔ اپنا دوسروں سے موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیا واقعی ہم نے اتنی محنت کی، راتوں کی نیندیں حرام کی، اپنے مقصد کو پانے کے لیے اپنے کمفرٹ زون اور آرام کی قربانی دی؟ ہمیں دوسروں کی کامیابیاں تو نظر آتی ہے لیکن اس کے پیچھے کی انتھک محنت، لگن، جستجو نظر نہیں آتی۔

کامیاب ہونے والے شخص نے کس طرح محنت کی، کیا کچھ برداشت کیا، مسائل اور مشکلات کا کیسے سامنا کیا، ان کو کس زاویے سے دیکھا، ان سے نمٹنے کے لیے کس حکمتِ عملی کو اپنایا، کیسے صبر کیا، ہر ناکامی پر خود کو کیسے سنبھالا، وقت کی دھار کو کیسے برداشت کیا یہ سب ہمیں نظر نہیں آتا یا شاید ہم دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

ہم کتابیں پڑھتے ہیں۔ ہر کتاب میں لکھنے والا اپنے تجربات، آپ بیتی یا کامیاب ہونے کی پوری داستان لکھتا ہے۔ کئی کتب ایسی ہیں جن میں کامیاب لوگوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں کہ یہ وصف اپنا لیں کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔ لیکن صرف کتابیں پڑھ کر ہم وہ سب کچھ نہیں سیکھ سکتے جو ہم تجربات کرکے، عملی قدم اٹھا کر سیکھ سکتے ہیں۔

ہمیں چاہئیے کہ کامیاب لوگوں کی صحبت ضرور اختیار کریں۔ یہ سیکھیں کہ وہ مختلف صورتحال میں کیسے فیصلے لیتے ہیں، مسائل کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کو کیسے وسائل میں تبدیل کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم پڑھ کر اتنا نہیں سیکھتے جتنا ہم عملی مثال سے سیکھتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا اضافہ کریں یا ایسے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا کریں، کامیاب لوگوں کے سیمینار میں شرکت کریں، ان لوگوں کے ساتھ گفتگو کریں جن کی سوچ مثبت ہو، جن میں کچھ کرنے کی لگن ہو اور جن کو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا ادراک ہو اور ان کا بہتر استعمال کرنا جانتے ہوں تاکہ ان کی صحبت ہم پر مثبت انداز میں اثر انداز ہو سکے لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ جب ہم کامیابی کی داستانیں سنتے ہیں تو ان کے پوشیدہ راز تک ہم نہیں پہنچ پاتے کیونکہ اکثر لوگ اپنا راز نہیں دیتے یا پھر کچھ نہ کچھ مخفی رہ جاتا ہے جو ہمیں خود تجربات کرکے سیکھنا ہوتا ہے۔ وہ سبق جو ہمیں وقت و حالات سکھاتے ہیں وہ کوئی کتاب یا کامیاب شخص نہیں سکھا سکتا۔ ہم نے اپنی کہانی خود لکھنی ہوتی ہے، اپنے حالات و واقعات، مسائل، و سائل اور محدود دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے۔ ہاں کی گئی غلطیوں کو دہرانا بے وقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔

ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ماضی کو بھول نہیں پاتے، حال میں ماضی کا سوچ سوچ کر خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں۔ ماضی تو بیت گیا اس سے تعلق صرف اتنا ہونا چاہئیے کہ جو غلطیاں کی گئی تھیں ان سے سبق حاصل کرکے آگے بڑھا جائے اور اپنے حال کو بہتر بنایا جائے اور اُس میں جیا جائے۔

قدرت نے صلاحیتیں سب کو عطا کی ہیں لیکن ان کو جاننا اور درست سمت میں ان کا استعمال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے ہمیں خود پر، اپنی سوچ پر کام کرنا ہوگا اور اپنی کچھ عادات کو بدلنا ہوگا۔

سب سے پہلے خود پر، اپنی صلاحیتوں اور تونائیوں پر بھروسہ رکھیں۔ ہمیشہ مثبت سوچیں۔ جو سوچ لیا، یا جو ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پر ڈٹ جائیں پھر آندھی آئے طوفان آئے اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹنا ہاں وقت کی ضرورت کے مطابق ان میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔

مسائل کا حل تلاش کرنا ہے ان سے گھبرانا یا پریشان نہیں ہونا ہے۔ ہم اپنی قوتِ ارادی اور پختہ عزم سے ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں اور غیر معمولی کام سر انجام دے سکتے ہیں۔

وہ کام کرنے کی کوشش کریں جو آپ کو پسند ہو۔ بھیڑ چال کا شکار نہ ہوں، نہ کسی سے مرعوب ہو کر اپنی سمت تبدیل کریں کیونکہ جو آپ کو پسند ہوگا اسی کام کو آپ دلجمعی اور لگن سے کریں گے پھر آنے والی مشکلات آپ کو یا آپ کے حوصلے کو پسپا نہیں کر سکیں گی۔

خیالی پلاؤ پکانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ عملی قدم کو فوقیت دیں اور کام ہونے سے پہلے اس کی تشہیر نہ کریں۔

ٹونی رابنز کے مطابق "آپ ہوا پر قابو نہیں پا سکتے لیکن آپ اپنی کشتی یا بادبان کو قابو میں رکھ سکتے ہیں"۔

آنے والے وقت کا ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیسا ہوگا لیکن آنے والی مشکلات سے ڈرنے کی بجائے ہمیں مناسب حکمتِ عملی استعمال کرنی چاہئیے اور درپیش چیلنجز کو مواقعوں میں تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئیے، اس کے ساتھ ساتھ ہم میں اتنی لچک بھی ہونی چاہئیے کہ تبدیلی کو اپنا سکیں اور وقت و حالات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔

ٹونی رابنز کہتے ہیں کہ رویے ہر اس انسان کی ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ہم میں اتنی ہمت تو ہونی ہی چاہئیے کہ اپنے ڈر پر قابو پا سکیں۔ خوف زدہ ہو کر جینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب تک ہم خطرہ مول نہیں لیں گے کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

میری این رچرڈ کہتی ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ہمت ایک زور دار گرجتی ہوئی آواز یا نعرہ ہو بلکہ بعض اوقات دن کے آخر میں یہ ایک چھوٹی سی منمناتی ہوئی آواز ہوتی ہے کہ، میں کل دوبارہ کوشش کروں گی"۔

غیر معمولی شخصیت بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بھرپور انداز سے اس طرح گزاریں جیسا ہم خود چاہتے ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ ہمارا نہیں ان کا مسئلہ ہے۔ زندگی میں پچھتاوا نہ رکھیں۔ ہمیں اپنی اقدار اور اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہئیے۔ غلطی کا خوف دل سے نکال دیں اور نہ ہی گزرے وقت پر پچھتائیں بلکہ ان غلطیوں سے سیکھیں اور انھیں دوبارہ نہ دہرانے کا پختہ ارادہ کریں۔

اپنی صلاحیتوں، توانائیوں پر بھروسہ رکھیں، اپنی کمیوں، کوتاہیوں پر توجہ مرکوز نہ کریں۔ کوئی بھی شخص کامل نہیں ہوتا۔ ہم سب اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں اور کوئی بھی چیز ہمیں بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوتی لہٰذا کامیاب ہونے اور غیر معمولی شخصیت بننے کے لیے اپنی سوچ کو بدلیں، اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور مسائل کو دیکھنے کا زاویہ بدلیں۔

ہم دوسروں کی ہر بات یا عادت کو اپنا نہیں سکتے لہٰذا اپنا آپ، دوسروں کی تقلید کرنے میں ضائع نہ کریں۔ اپنی صلاحیتوں پر کام کریں۔ قدرت نے سب کو نہ صرف مختلف تخلیق کیا ہے بلکہ منفرد قدروں سے بھی نوازا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اپنی زندگی میں مینٹور یا ناصح (تجربہ کار استاد) مل جاتا ہے جو ان کی درست سمت میں رہنمائی کرتا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی میں غیر معمولی شخصیت ہونے کے 10 گُر میں سے پانچ یا چھ بھی آ جاتے ہیں تو ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب ہو سکتے ہیں۔

Check Also

Aqal o Be Aqli Do Kinare, Aik Darya

By Muhammad Saqib