سرکاری یتیم خانے اور یتیم بچیاں (1)
اس شہر اقتدار میں مجھے ایسے شخص کی تلاش ہے جو یتیموں کے حقوق کے بارے میں قرآن و حدیث کے احکامات سے واقف ہو اور پھر بھی کاشانہ سکینڈل سے غافل ہو۔ مجھے اس شہر اقتدار و اختیار میں ایسے شخص کی تلاش ہے جو جانتا ہو کہ قرآن میں صرف یتیموں کے حقوق اور ان پر ظلم کرنے سے باز رہنے کے حوالے سے اکیس 21آیات کا نزول ہوا ہے۔
تبدیلی سرکاری کی ریاست مدینہ میں مجھے ایسے روشن دل کی تلاش ہے جسے یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کے بارے میں رسولِ رحمتؐ کی کوئی حدیث پوری یاد ہو۔ اس شہر سنگ میں مجھے ایسے قاضی کی تلاش ہے جو اللہ سے یتیم کے معاملے میں نا انصافی سے ڈرتا ہو۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو(سورۃ النساء) میں اس تلاش میں کئی روز سے سرگرداں ہوں مگر مجھے ایسی مہربان سماعت کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ اللہ کے ڈر سے بھرا ہوا ایسا دل کہیں نظر نہیں آ رہا جو روز جزا و سزا پر یقین رکھتا ہو۔ اس اسلامی ریاست میں، جیسے نئے پاکستان میں مدینہ کی ریاست کہا جاتا ہے، مجھے کوئی ایسا مومن نظر نہیں آ رہا جو اقتدار و اختیار بھی رکھتا اور یتیموں مسکینوں کے معاملے میں اللہ اور اس کے رسول سے بھی ڈرتا ہو۔
آپ مجھ پر مایوسی اورقنوطیت پسندی کا الزام دھر دیں گے تو یہ آپ کی مرضی۔ میں تو وہی لکھ رہی ہوں جو دیکھ رہی ہوں۔ میں گزشتہ نو مہینوں سے ایک سرپھری بے اختیار، عورت کو دہائیاں دیتے اور اہل اختیار کے دروازے کھٹکھٹاتے دیکھ رہی ہوں جو سرکاری اداروں میں بچیوں پر ہونے والے ہوشربا ظلم کی داستان سنا کر ان سے انصاف، امن اور مدد کی اپیل کر رہی ہے لیکن اس کی آواز پر شہر کا کوئی با اختیار اٹھ کر یہ نہیں کہتا کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کے بارے میں ڈرتا ہوں۔ جگہ جگہ دہائیاں دیتی اور یتیم لڑکیوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھاتی افشاں لطیف اہل اقتدار سے مایوس ہو کر ملک کے سب سے بڑے قاضی کو انصاف کے لیے پکار رہی ہے۔ دیھئے کب جواب آتا ہے۔
میں اسی ایشو پر پہلے بھی ایک کالم لکھ چکی ہوں۔ اس وقت تک کاشانہ سکینڈل کی مرکزی گواہ اقرا کائنات جسے مار دیا گیا تھا۔ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ بہت سے حقائق ابھی پردے میں چھپے ہوئے تھے۔ سرکاری اداروں کی سرپرستی میں ظلم کا شکار ہونے والی لڑکی اقرار کائنات کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بوجوہ سیل کر دیا گیا تھا جس کی وجہ اب سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اس ظلم گزیدہ لڑکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر کاز آف ڈیتھ میں سٹارویشن(Starvation) لکھا گیا ہے۔
جناح ہسپتال کے مردہ خانے کی انچارچ ڈاکٹر فرحت کا کہنا ہے کہ انہوں نے کیریئر میں پہلی بار کسی مردے کی موت کی وجہ والے خانے میں سٹارویشن لکھا ہے۔ یعنی مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والوں کی زیرسرپرستی ایک یتیم لڑکی کو ہفتوں بھوکا پیاسا رکھ کر لمحہ لمحہ موت کی ا ذیت سے گزارا گیا۔ اس تکلیف کا تصور ہی محال ہے۔ ظلم کرنے والوں نے اذیت دینے کی انتہا کر دی۔ سورہ الضحیٰ میں ارشاد ہوتا ہے:اور تم یتیم کے معاملے میں سختی نہ کرنا۔ کہاں یتیم کے بارے میں اس قدر حساسیت اور کہاں اسلامی ریاست میں یتیم پر اتنا ظلم کہ لفظ بھی جس کا بوجھ نہ سہہ سکیں۔
یہ ظلم اس پر کسی جنگل میں نہیں ہوا۔ اسی بھرے پڑے، آباد، کھابے اڑاتے شہر میں ہوا۔ جہاں ایک وقت کے کھانے پر درجنوں قسم کے ذائقوں سے مزین وسیع و عریض دسترخوان سجتے ہیں اور بچے ہوئے کھانے، کوڑے دان میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ فاقوں سے مار دی گئی اقرا کی تصویریں سفید کفن میں اتنی ہولناک تھیں کہ ہر چینل نے اسے بلر(Blurr) کر کے چلایا۔ یہاں پر چینلز نے پروفیشنل بددیانتی کی۔ اگر وہ تصویریں واضح طور پر چینلوں پر چلا دی جاتیں سارا پاکستان اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا۔ وہ تصویریں اس پر ہونے والے ہولناک ظلم کی ساری کہانی بیان کرتی تھیں۔ سرکاری یتیم خانوں میں، سرکار کی زیر سرپرستی یتیم لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ظلم کرنے والوں نے ایک گواہ کو عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کی۔ کاشانہ میں کم و بیش آٹھ مزید ایسی لڑکیاں جو اس ظلم کی گواہ تھیں، انہیں غائب کر دیا گیا ہے۔
افشاں لطیف جنہوں نے 12 جولائی کو یہاں ہونے والی جنسی ہراسگی پر تحریری شکایات ڈیپارٹمنٹ میں بھجوائی تھیں انہیں معطل کر دیا گیا، اس کے بعد کاشانہ کی 57 یتیم لڑکیوں کے کھانے پینے کا بجٹ تین ماہ تک بند کر دیا گیا۔ افشاں لطیف وزیر برائے سوشل ویلفیئر بیت المال اجمل چیمہ کا نام لے رہی ہیں کہ اس کے حکم پر بجٹ بند ہوا۔ کاشانہ سکینڈل میں ظلم صرف اقراء کی موت نہیں بلکہ کئی جہتوں میں ظلم ہوا اور ہو رہا ہے۔ تین ماہ بجٹ بند رہا۔ نوبت فاقوں پر آ گئی تو افشاں لطیف نے اپنے ذرائع سے روز مرہ کی گروسری، کھانے پکانے کا سامان خریدا۔ اس میں کھانے کے علاوہ کتابیں، دوائیں، کپڑوں کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے افشاں لطیف کے بقول انہیں اپنی گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ مجموعی طور پر پندرہ سولہ لاکھ کے بل بنے جس میں سے انہیں 9لاکھ کے واجبات ادا کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ کاشانہ کے معاملے میں اپنا منہ بند رکھیں تا کہ جو معاملات جیسے چل رہے ہیں چلتے رہیں اور اس انعام کے طور پر انہیں پروموشن دیتے اور پسند کی ڈیپوٹیشن پر بھیجنے کا لالچ بھی دیا گیا لیکن اس اللہ کی بندی نے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور وہ راستہ تھا کہ وہ یتیم بچیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گی۔ (جاری ہے)